روح الامین نایابؔ
الیکشن 2018ء کی اس دوسری قسط میں ہم ایک خاص تاثر کا ذکر کریں گے جو الیکشن کے نتائج کے بعد پیدا ہوچکا ہے۔ اس الیکشن میں قوم پرستوں یعنی (اے این پی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی) کو اور مذہبی سیاسی قوتوں کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اے این پی کو نیشنل اسمبلی میں ایک عدد اور اس طرح جماعت اسلامی کو بھی ایک ہی نشست ملی ہے جب کہ ایم ایم اے کی پوری قیادت اپنی نشستیں ہار چکی ہے۔ قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کے نام پر جو بارہ عدد نشستیں جیتی جا چکی ہیں، یہ دراصل مولانا فضل رحمان صاحب کی وہ سیٹیں ہیں جو وہ ہمیشہ اپنی اثر و رسوخ، قام قبیلہ یا متعلقہ امیدواروں کا اپنے حلقے میں طاقتور ہونے کی بنا پر جیت کر آرہے ہیں، لیکن۔۔۔ ہمارے بعض صحافی اور تجزیہ نگار دوست اس نتائج کے حوالے سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان موجودہ نتائج نے ہمیشہ کے لیے قوم پرستوں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا ملکی سیاست سے نام و نشان مٹادیا ہے اور آئندہ کے لیے وہ سر نہیں اٹھاسکیں گے۔ ہوسکتا ہے ان دوستوں کا تجزیہ صحیح ہو، کیوں کہ اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے، تو مذکورہ بالا ان دو سیاسی قوتوں نے اپنے اپنے وقت کی حکمرانی میں وہ کارکردگی نہیں دکھائی جس کی عوام توقع کررہے تھے۔ اے این پی کا المیہ یہ ہے کہ وہ انتخابات میں مخصوص خان خوانین کو صوبائی اور قومی ٹکٹ دے کر خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ کبھی جو پہلے جیت کر آ رہے ہیں، وہ اس بار بھی میدان مار لیں گے۔ مثلاً سوات کی سطح پر وہ اس بار بھی کسی عام آدمی کو صوبائی یا قومی ٹکٹ نہ دے سکی۔ اس بارے میں ایک اور حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی کے نام پر کوئی نئی پارٹی اور نئی قیادت، نئے نعروں اور نئے پروگراموں کے ساتھ سامنے نہیں آئی ہے جب کہ پرانی پارٹیوں اور پرانی قیادتوں سے عوام تنگ آچکے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قومی سوال کی اہمیت کم ہوچکی ہے، بلکہ قومی سوال پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھر کر آیا ہے۔ دراصل قومی سوال موجودہ سماج میں محرومی کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سامراجی ریاست کا مظلوم قوموں پر ظلم و زیادتی کا ایک قدرتی رد عمل ہے۔ ریاست کے بحران میں جتنا اضافہ ہوگا، اُتنا ہی قومی جبر میں بھی اضافہ ہوگا، لیکن حیران کن صورتحال یہ ہے کہ ان حقائق کے باوجود قام پرست پارٹیاں اور قام پرست قیادتیں سیاسی طور پر ختم ہونے کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس دوران میں پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) تحریک تیزی سے اُبھری، اچانک چھاگئی، مگر اب کچھ جمود کا شکار ہے۔ تحریک کے اٹھنے، چلنے، پھیلنے اور اب رُکنے کے عمل نے اپنے پیچھے شکوک و شبہات کے سوالات چھوڑ دیے ہیں، لیکن اس کے باوجود آنے والے وقت میں کچھ ایسے رجحانات نظر آ رہے ہیں کہ یہ تمام چھوٹی بڑی تحریکیں، نئی پرانی قیادتیں اور پارٹیاں نیز کچھ ترقی پسند گروپ اپنی ذات میں ایک وسیع عوامی تحریک کے لیے ایک مشترکہ ہمہ گیر پارٹی بنانے، ایک مشترکہ متفقہ عوامی پروگرام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے اور رفتہ رفتہ حالات اُس طرف گامزن بھی ہیں، لیکن اُس ہمہ گیر پارٹی اور عوامی تحریک کی قیادت وہی لوگ کرسکیں گے جو اس تحریک میں شامل تمام لوگوں سے زیادہ بہادر اور نڈر ہوں، جو درست سمت کا تعین کرسکیں اور ساتھ صحیح نعرے اور ٹھوس پروگرام دے سکیں۔ بزدل اور جمود کے شکار ذہن ان تحریکوں میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔ اب یہ تقاضا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قومی سوال کو طبقاتی سوال کے ساتھ شامل کیا جائے اور صرف قومی نہیں بلکہ ’’طبقاتی جد و جہد‘‘ کا آغاز کیا جائے۔ تب کہیں جاکر یہ جد و جہد صرف ظالم افراد کے خلاف نہیں بلکہ ظالم اور کرپٹ اداروں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوجائے گی۔
لہٰذا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ موجودہ الیکشن کے نتائج سے یہ تاثر اخذ کیا جائے کہ قوم پرست سیاسی طاقتیں ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئیں۔ کیوں کہ موجودہ الیکشن کے انعقاد پر دھاندلی کے اَن گنت سوالیہ نشان ہیں کہ کیا واقعی یہ عوام کی رائے ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ان نتائج کو صحیح تسلیم بھی کیا جائے، تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پاکستانی عوام نے واقعی قوم پرستوں اور مذہبی سیاست دانوں کے خلاف شعوری طور پر یہ فیصلہ کیا ہے؟ اور اس سوچ سمجھ کے ساتھ ووٹ دیا ہے کہ قوم پرستوں اور مذہبی سیاست کا ہمیشہ کے لیے جنازہ نکالا جائے اور فاتحہ خوانی بھی کی جائے۔ میرے خیال میں ایسا ہے نہیں، کیوں کہ یہاں ایک جذباتی، ہوائی اور خیالی ووٹ کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
مجھے یہاں 1970ء کا الیکشن یاد آیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ایک جذباتی ہمہ گیر تحریک چلائی تھی۔ بھٹو صاحب کی شخصیت کا سحر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ وہ خود بلا کے مقرر تھے۔ گھنٹوں بولتے تھے اور کوئی فرد جلسے سے نہیں اٹھتا تھا۔ جب وہ بولتے تو گویا سیکڑوں کے مجمع کو سانپ سونگ جاتا۔ بارش اور دھوپ میں عوام گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ گھنٹوں انتظار کرتے تھے۔ الیکشن میں انہوں نے بھی بڑے بڑے برج اُلٹے تھے۔ سارے مولوی ہار گئے تھے۔ بھٹو اور اس کی پارٹی نے باقاعدہ انقلابی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا۔ محنت کش مزدور کی بات کی تھی۔ کسانوں، مزدوروں، گوجروں، رکشہ والوں، تانگے والوں، غریب دکان داروں، جھونپڑیوں میں رہنے والوں اور سب سے زیادہ طلبہ اور نوجوانوں میں ہر دلعزیز اور مقبول تھے، لیکن افسوس نتیجہ بہت مایوس کن اور خوفناک نکلا۔ کیوں کہ سب خیالی پلاؤ تھا اور ہوائی باتیں تھیں۔ کوئی نظریاتی تنظیم اور شعور نہیں تھا۔ اوپر سے نیچے تک جذباتی فیصلے تھے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بھٹو جیسا انسان پھانسی پر لٹک جائے گا۔ تبدیلی کیا، وہ تو پورے ملک میں ایک انقلاب برپا کرچکا تھا۔ بھٹو کی شخصیت کے آگے عمران خان کچھ بھی نہیں، جن لوگوں نے بھٹو اور اُس کی تحریک دیکھی ہے، وہ میری بات کو سچ قرار دیں گے۔ میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اُلٹے ہوئے برج پہلے سے زیادہ آن سے اُٹھے۔ اُنہی قوم پرستوں اور مذہبی سیاست دانوں نے تحریک مصطفی کے نام پر اُسے تخت سے بھی گرادیا اور اُسے تختۂ دار پر بھی چڑھادیا، جن قوم پرستوں اور مذہبی سیاست دانوں کو بھٹو صاحب نے 1970ء میں عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا، اُنہی شکست خوردہ عناصر نے صرف 9 سال بعد 4 اپریل 1979ء کو اُسے پھانسی پر چڑھا دیا۔ عبرت کا مقام ہے۔ سوچنے کا وقت ہے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرا تو نہیں رہی۔