شمیم شاھد
سرحد پار روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک عسکریت پسندوں کی سوات آمد، سرگرمیاں شروع کرنے اور اھم سیاسی عہدیداروں پر حملے کرنا یا مبینہ طور پر بھتے طلب کرنا ایک اھم اور جواب طلب سوال ہے۔ ابھی تک کسی بھی اھم حکومتی عہدیدار نے نہ تو اس اھم سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ھے اور نہ کسی اھم حکومتی عہدیدار نے اس بارے میں کسی ماتحت سے باز پرس کی ھے۔ کس طرح یہ روپوش اور دھشت گردی میں مطلوب عسکریت پسندوں نے پاک افغان سرحد پر اربوں روپے امریکی امداد سے لگائی گئی خاردار تار کو عبور کر کے وادی سوات سمیت خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں پھیل کر نہ صرف پناہ گاہیں قائم کرنے بلکہ پرتشدد سرگرمیاں شروع کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جون کے اوائل میں پارلیمان کی غیرمعمولی قومی سلامتی کی کمیٹی نے سرحد پار کابل میں روپوش کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پراسرار اور خفیہ مذاکرات کی تحفظات کے ساتھ توثیق کی تھی مگر کیا پارلیمان کی اس غیرمعمولی قومی سلامتی کمیٹی کو طالبان عسکریت پسندوں کے پاکستان واپس آنے اور وادی سوات سمیت مختلف علاقوں میں ٹھکانوں کے قیام سے مطلع کر دیا گیا تھا۔ جواب ابھی تک نہیں یا مکمل طور پر غیرمبہم ھے۔ عسکریت پسندی کے سینکڑوں واقعات میں ہزاروں بے گناہ افراد بشمول پشاور آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی کے طلبا کے قتل میں مطلوب افراد کا افغانستان سے پاکستان داخل ھونا کوئی عام سی بات نہیں بلکہ اس سے ریاست کے انتہائی اھم اداروں کی کارکردگی اور حکمت عملی پر کئی ایک نہیں بلکہ سینکڑوں سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور ان ریاستی اداروں کے ذمہ داران کو ان سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ بد قسمتی یہ ھے کہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تو سوات یا خیبر پختونخوا میں طالبان کے آنے سے لا علم ہیں جبکہ نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ انتہائی اہم دیگر وفاقی اداروں کے زیادہ تر اعلی عہدیداروں نے اس اھم نوعیت کے مسئلے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ عسکریت پسند ایسے دنوں میں افغانستان سے دیر کے بن شاھی یا باجوڑ کے غاخی پاس کے راستوں خیبر پختونخوا میں داخل ھو کر انتہائی پراسرار طور پر وادی سوات اور طور غر کے راستے بونیر یا ایبٹ آباد پہنچ گئے جب ملک بھر کے زیادہ تر سیکورٹی اداروں کی توجہ محرم الحرام کے دوران امن قائم رکھنے پر مرکوز تھی۔ واقفانِ حال کا کہنا ھے کہ ان عسکریت پسندوں کے افغانستان سے پاکستان داخلہ اور وادی سوات سمیت مختلف علاقوں میں اپنی اپنی پناہ گاہوں تک پہنچنے کا عمل چھٹی سے دسویں محرم الحرام کے ان پانچ دنوں میں مکمل ھوئی تھی۔ نویں محرم کو اگر ایک طرف سوات کی تحصیل مٹہ کی پہاڑی چوٹیوں پر پہنچنے والے عسکریت پسندوں نے اپنی آمد کی اطلاع پاک فوج کے دو اعلی رتبے اور ایک پولیس ڈی ایس پی سمیت چار افراد کو ایک معمولی جھڑپ کے بعد یرغمال بنا کر دی تھی تو دوسری طرف عین اسی دن جب ملک بھر میں عام تعطیل تھی حکومتی سطح پر تقرری اور تبادلوں کے بارے میں ایک اھم اعلامیے کا اجرا بھی کوئی معمولی اقدام نہیں تھا بلکہ ان دونوں واقعات کا ایک دوسرے کے ساتھ بہت بڑا گہرا تعلق تھا اور ان واقعات پر چپ رہنا یا دبانا اور یا عوام سے چھپانا کسی بھی طور احسن اقدام ثابت نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں اب اگر نہیں تو مستقبل میں عوام کو حقیقت سے کسی نہ کسی طریقے سے آگاہی ضرور حاصل ھو گی مگر ایسا نہ ہو کہ حمود الرحمن کمیشن کی طرح سب کچھ وقت کے بعد۔ اب وقت ھے کہ حکومت، حکومتی عہدیدار اور ریاستی ادارے سب کچھ عوام کے سامنے رکھیں اور بتائیں کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو کس طرح خار دار کو عبور کرنے، افغانستان سے خیبر پختونخوا میں داخل ھونے اور وادی سوات میں ٹھکانے قائم کرنے میں کامیاب ھو گئے۔ سپیکر قومی اسمبلی کا فرض بنتا ھے کہ وہ پارلیمان کی اس غیرمعمولی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور ذمہ داران کو پابند بنائیں کہ یہ سب کچھ کیوں اور کس مقصد کے لئے ھوا۔ ماضی کے برعکس اس بار نہ صرف سوات بلکہ خیبر پختونخوا کے عوام نے متفقہ طور فیصلہ کیا ھے کہ وہ کسی بھی طور پر اپنے شہر، قصبے، گاوں اور دیہات ان عسکریت پسندوں جنہیں جنرل پرویز مشرف اور حمید گل جیسے طالع آزماؤں نے ”قیمتی اثاثے” کہا تھا، ان کے لئے خالی نہیں کریں گے۔
طالبان کی سوات آمد: تحقیقات کی ضرورت
