بیس پچیس سال سے، ایسے افراد کی طرف سے ”رواج نامہ سوات“ کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو سوات کے حوالے سے تحقیق اور کچھ لکھنے کے کام میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے اس طرح کے مغالطے بھی سننے کو ملے کہ یہ ریاستِ سوات کی تحریری قانونی کتاب تھی، جیسا کہ ”پاکستان پینل کوڈ“ یا ”کریمنل پروسیجر کوڈ“ ہیں، اور ریاست میں فیصلے اس کے تحت کیے جاتے تھے۔ ”رواج نامہ سوات “ ایک باقاعدہ طور پر لکھی گئی کتاب ہے اور نہ ریاستِ سوات کے دور میں ایسی کوئی کتاب موجود ہی تھی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ کیسے وجود میں آئی اور اسے ’’رواج نامہ سوات“ کا نام کیوں دیا گیا، یا اسے اس نام سے کیوں منسوب کیا گیا؟
اس بات کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں کہ ریاستِ سوات میں قوانین کیسے وجود میں آئے؟ اس کی کچھ تفصیل کے لیے میری انگریزی کتاب ”سوات سٹیٹ (1915-1969): فرام جینسز ٹو مرجر“ (شائع کردہ: اُکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2008ء) یا اس کا اُردو ترجمہ ”ریاستِ سوات (1915ء تا1969ء)“ (شائع کردہ: شعیب سنز، پبلشرز اینڈ بُک سیلرز، مینگورہ، سوات، 2013ء) ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں مختصراً بتانا کافی ہوگا کہ میاں گل عبد الودود المعروف باچا صاحب کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد،اُس نے قوانین بنانے کی خاطر یہ طریقہئ کار اپنایا کہ جو علاقہ ریاستِ سوات میں شامل ہوتا، یا بہ زورِ شمشیر شامل کیا جاتا، وہاں کے جرگہ کو اپنے علاقے کے لیے مختلف قسم کے جرائم اور اُمور کے لیے قوانین بنانے کا کہتا۔
جرگہ ممبران اپنے علاقے کے لیے جو قوانین بناتے اُنھیں ضبطِ تحریر میں لایا جاتا اور اُن پر جرگہ ممبران کے دستخط یا انگوٹھوں کے نشانات ثبت کیے جاتے تھے۔ اِنھیں اُس علاقے کا ”دستور العمل“ کہا جاتا تھا اور اس علاقے کے مقدمات کے فیصلے اور دیگر اُمور اِس دستورالعمل کے تحت فیصلہ ہوتے اور انجام پاتے تھے۔ اس طرح ریاستِ سوات میں شامل تمام علاقوں کے قوانین یا دستورالعمل اُن علاقوں کے جرگوں نے خود وضع کیے اور اس وجہ سے کسی کو اُن پر اعتراض یا شکایت کی گنجایش بھی نہ رہتی۔ اس طرح کے بنائے گئے قوانین میں ایک طرف اگر عوام کی مرضی شامل ہوتی، تو دوسری طرف ان میں مروج مقامی رسم و رواج اور روایات کا خیال بھی رکھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بنائے ہوئے قوانین یا دساتیر میں پوری ریاست میں یکسانیت نہیں تھی اور ان پر علاقائی رنگ غالب رہا۔ تاہم یہی خصوصیات ان کو متعلقہ عوام کے لیے قابلِ قبول بنانے اور ان کی پاس داری کرنے کے پابند بناتے اور ان سے سرتابی اور خلاف ورزی کی صورت میں مقرر کردہ سزا بھگتنے یا جرمانے کی ادائی میں لیت و لعل کرنے کی کوئی گنجایش نہیں چھوڑی۔
اقتدار پر باچا صاحب کی گرفت مضبوط ہونے کے بعد،اُس نے اپنی طرف سے احکامات جاری کرکے متعلقہ جرگوں سے اُنھیں اپنے اپنے دستورالعمل کا حصہ بنانے کا طریقہئ کار اپنایا۔ اگرچہ اس صورت میں متعلقہ جرگے کو اس سے سرتابی کی گنجایش نہیں تھی، تاہم اس صورت میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ متعلقہ علاقے کے رسم ورواج اور روایات کا خیال رکھا جائے۔ اس طرح باچا صاحب کے دورِ حکم رانی میں قوانین کے وضع کرنے اور اُن کے نفاذ میں علاقائی رواج یا دستور کا حتی المقدور خیال رکھا گیا اور جب تک ریاست اور حکم ران کے مفادات سے ٹکراو کی صورت پیدا نہیں ہوتی، انھیں مقدم رکھا گیا۔
12 دسمبر 1949ء کو باچا صاحب کا اپنے بیٹے اور ولی عہد میا ں گل جہان زیب کے حق میں ریاستِ سوات کی حکم رانی سے دست بردار ہونے اور اس کے ساتھ میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب کے برسرِاقتدار آنے کے بعد قوانین بنانے کے ضمن میں اس صورتِ حال میں تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ والی صاحب نے جرگوں کے ذریعے قوانین وضع کرنے یا اپنے احکامات کا اُن سے منظور کروانے کا رواج اور روش ترک کرتے ہوئے مطلق العنان حکم رانوں یا بادشاہوں کے طرز پر اپنے احکامات براہِ راست جاری کرنے کا راستہ اپنایا۔ اُس کے حکم ناموں کا آغاز عمومی طور پر ان الفاظ سے ہوتا تھا: ”دا زما حکم دے“یا ”زما حکم دا دے“ یعنی ”یہ میرا حکم ہے“ یا”میرا حکم یہ ہے۔“ اُس کے ان حکم ناموں کی کاپیاں تمام متعلقہ دفاتر اور حکام کو بھیجی جاتی تھیں اور اُن کے لیے یہ لازم قرار دیا گیا کہ ان احکامات کی کاپیاں ریکارڈ کے طور پر محفوظ رکھی جائیں، تاکہ بہ وقتِ ضرورت ان کی تعمیل کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ اور بات ہے کہ عام طور پر ایسا نہیں کیا جاتا، یہاں تک کہ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے ریاستِ سوات کے اعلا عہدوں پر فائز رہنے والے اکثر افرادسے انٹرویوز کے دوران میں اُن کو اُن حکم ناموں کی اکثریت سے لا علم پایا۔ ان احکامات یا حکم ناموں کی کاپیاں مرکز میں بھی بہ طورِ ریکارڈ محفوظ رکھ لی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں والی صاحب کے جاری کردہ بعض احکامات اُس کے دفتر کے رجسٹروں میں بھی درج کر کے بہ طورِ ریکارڈ محفوظ کیے گئے ہیں، تاکہ سند رہیں۔
تاہم اس کا ذکر مَیں نے اپنی محولہ بالا انگریزی کتاب ”سوات سٹیٹ (1915-1969)“ اور اس کے محولہ بالا اُردو ترجمے”ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء)“ میں کیا ہے کہ ”حالاں کہ اُن سارے احکامات پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کیا گیا لیکن اس ضمن میں کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل ہوئی۔“اور اس عبارت کو نوٹ میں تحریر کیا ہے
کہ”عجیب بات یہ ہے کہ عام لوگ ان فرمانوں سے ناواقف تھے بلکہ سابقہ ریاست کے وہ حکام جن سے مصنف نے اس ضمن میں ملاقاتیں کیں، وہ بھی اس قسم کے زیادہ قوانین اور فرامین سے بے خبر تھے۔“ (ملاحظہ ہو، انگریزی کتاب کے صفحات 250 اور 263، اور اس کے اُردو ترجمے کے صفحات 212 اور 218۔)
باچا صاحب اور والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں مرکز میں متعین اہل کاراور علاقائی سطح پر حاکمیوں (حاکمی کی جمع) اور تحصیلوں کی سطح پر حاکم اور تحصیل دار مقدمات کے فیصلوں اور دوسرے اُمور نمٹانے کے ضمن میں ان دساتیر اور احکامات کوبروئے کار لاتے اور اگر کسی صورت میں یہ دساتیرا ور احکامات خاموش رہتے، تو اُس صورت میں ان کے مندرجات سے راہ نمائی لی جاتی تھی۔ بہ صورتِ دیگر اُس ضمن میں اُس علاقے کے رواج اور حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے صواب دید پر فیصلے کرتے اورمتعلقہ اُمور کونمٹاتے۔ چوں کہ مرکز اور علاقائی سطح پر متعین تمام حکام اور اہل کاروں کا تعلق ریاستِ سوات کے علاقے سے تھا۔ لہٰذا اُنھیں مرکز کے احکامات اورمتعلقہ علاقے کے دستورالعمل کے علم کے علاوہ متعلقہ علاقے کے رسم و رواج اور روایات کا علم اورادراک حاصل ہوتا تھا اور اس حوالے سے اُنھیں کوئی خاص مشکل درپیش نہیں ہوتی تھی۔
مَیں نے اپنی تحریروں میں باربار اس کی صراحت کی ہے کہ 28 جولائی 1969 ء کو اُس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان یحییٰ خان نے قوم سے اپنے خطاب میں پاکستان میں اُس وقت تک باقی رہنے والی تین ریاستوں چترال، دیر اور سوات کے ”مرجر“ یا اِدغام کا اعلان کیا لیکن اس اعلان کے ساتھ ان ریاستوں کا خاتمہ نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اس حوالے سے بعض قانونی تقاضے پورے کرنا تھے اور اس کے لیے وقت درکار تھا۔ یاد رہے کہ جو مقامی یا نوابی ریاستیں 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے وقت اُس وقت کے مغربی پاکستان کی حدود کے اندر تھیں، اُنھیں 1955ء میں ون یونٹ کے قیام یا اُس وقت کے مغربی پاکستان کے صوبوں کو ختم کر کے ایک صوبہ بنائے جانے تک یا اُس کے قیام کے وقت خاتمہ کیا گیا۔ تاہم بعض ناموافق ملکی اور بیرونی اسباب کی وجہ سے صرف چترال، دیر اور سوات کی ریاستوں کو خصوصی آئینی حیثیت دے کر اِنھیں بہ حال رکھا گیا۔
جیسا کہ اوپر بھی ذکر ہوا، اور میری دوسری تحریروں میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ یحییٰ خان نے قوم سے اپنے خطاب میں چترال، دیر اور سوات کی ریاستوں کے ”مرجر“ یا اِنضمام یا اِدغام کا اعلان کیا، لیکن اس کے ساتھ ان ریاستوں اور ان کے حکم رانوں کی حکم رانی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ یہ ریاستیں اب بھی قانونی طور پر قائم تھیں اور ان کے حکم ران اپنے پرانے اختیارات رکھتے ہوئے ان کے قانونی حکم ران تھے۔ ان ریاستوں کے باقاعدہ خاتمے اور ان کے حکم رانوں کو اپنے اختیارات سے سبک دوشی کے قانونی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے 15 اگست 1969ء کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، زون اے، نے گورنر مغربی پاکستان کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے صدرِ پاکستان کی منظوری سے ”ریگولیشن I آف 1969ء“، ”دیر، چترال اینڈ سوات (ایڈمنسٹریشن) ریگولیشن، 1969ء“، کو دیر، چترال اور سوات کی سابقہ ریاستوں پر مشتمل قبایلی علاقوں میں چند انتظامی تبدیلیوں کی خاطر فوری طور پر نافذالعمل ہونے کے ساتھ جاری کیا۔
اس ریگولیشن کے آرٹیکل (a) 3 کے تحت مذکورہ علاقوں کے حکم رانوں کو اُن کے اختیارات سے سبک دوش کیا گیا۔ اور جیسا کہ ذکر ہوا، اس ریگولیشن کی ابتدا ہی میں مذکورہ ریاستوں کو سابقہ ریاستیں (Former States) قرار دیا گیا۔ اس طرح 15 ۱گست 1969 ء کو دیر، چترال اور سوات کی ریاستوں اور اُن کے حکم رانوں کی حکم رانی کا خاتمہ ہوا۔ اس ریگولیشن کے آرٹیکل (b) 3 کے تحت یہ صراحت کی گئی کہ مذکورہ علاقوں کے ضمن میں شق (a) میں مذکورہ اختیارات اور وظائف کو، صوبائی حکومت کی عمومی نگرانی اور ہدایات کے مطابق، ایسا افسر، فرد یا اتھارٹی استعمال کرے گی جیسا کہ صوبائی حکومت اس بابت مقرر یا بااختیار کرے گی۔ اس شق کے تحت 16 اگست 1969ء کو مغربی پاکستان کی صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے یہ اختیارات کمشنر ملاکنڈ ڈویژن (جو کہ سید منیر حسین کو مقرر کیا گیا، چوں کہ اس سے قبل ملاکنڈ ڈویژن کا وجود نہیں تھا، لہٰذادوسرے لفظوں میں ملاکنڈ ڈویژن بھی وجود میں لایا گیا اور سید منیر حسین کو اس کا پہلا کمشنر مقرر کیا گیا) کو تفویض کیے گئے۔
اس ریگولیشن کا آرٹیکل 6 کچھ یوں ہے:6. Constitution of administrative unit.- The Provincial Government may, by notification in the official Gazeete, constitute the specified territories into such administrative unit or units as it may deems fit, and for this purpose may include in any such administrative unit, any area adjoining the specified territories.
یعنی کہ: انتظامی یونٹ کا قیام۔ صوبائی حکومت، سرکاری گزٹ میں نوٹیفیکیشن کے ذریعے، مذکورہ مخصوص علاقوں کی ایسی انتظامی وحدت (یونٹ) یا وحدتیں قائم کرے گی جیسی وہ مناسب سمجھے، اور اس مقصد کے لیے ایسی کسی انتظامی وحدت(یونٹ) میں ایسا کوئی بھی علاقہ شامل کرے گی، جو اس مخصوص علاقے سے متصل واقع ہو۔
لہٰذا اس ریگولیشن کے تحت اگست 1969ء میں ملاکنڈ ڈویژن کا انتظامی یونٹ قائم کیا گیا اور اس کے لیے کمشنر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد سابق چترال، دیر اور سوات کی ریاستوں کے علاقوں کو ضلعوں کا درجہ دیا گیا اور ہر ضلع کو ایک ڈپٹی کمشنر کے ماتحت دیا گیا۔ چوں کہ کالام کا علاقہ ریاستِ سوات کا حصہ نہیں تھابلکہ ایک علاحدہ قبائلی علاقے کی حیثیت کا حامل تھا جس کا انتظام والیِ ریاستِ سوات بہ حیثیتِ ایڈمنسٹریٹر،حکومت پاکستان کے نمایندے کے طور پر،انجام دیتاتھا اور اس کے لیے اُسے سالانہ وظیفہ بھی دیا جاتا تھا، لہٰذا اس ریگولیشن کی اس شق کے تحت انتظامی لحاظ سے اسے ضلع سوات کا حصہ بنایا گیا۔ تاہم یاد رہے کہ آئینی لحاظ سے کالام کے علاقے کی علاحدہ حیثیت تمام آئینی وقانونی دستاویزات میں برقرار رکھی گئی اور اس وجہ سے اس کا خصوصی ذکر اس طرح کیا جانے لگا کہ ضلع سوات بہ شمول کالام یعنی District “Swat (which includes Kalam)” (ملاحظہ ہو،پاکستان کے 1972 ء کے عبوری آئین کا آرٹیکل 260 اور 1973ء کے آئین کا آرٹیکل 246۔)
15 اگست 1969ء کو دیر، چترال اور سوات کی ریاستوں کے حکم رانوں کے اختیارات کے استعمال کا خاتمہ کیا گیا،لیکن ان علاقوں کی خصوصی آئینی حیثیت کو مئی 2018ء میں آئین میں 25ویں ترمیم تک برقرار رکھا گیا۔ جیساکہ ذکر ہوا، مذکورہ سابقہ ریاستوں کے حکم رانوں کے اختیارات کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کو تفویض کیے گئے اور بعد میں متعلقہ ضلعوں کے قیام کے بعد ان اختیارات میں سے بعض کو ان ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کو تفویض کیے گئے۔ اس طرح وہ متعلقہ سابقہ ریاستوں کے علاقوں (اورضلع سوات کے ضمن میں سابق ریاستِ سوات کے علاقوں کے ساتھ ساتھ کالام کے علاقے کا بھی) حکم ران بن بیٹھے۔
یہاں ان سابقہ ریاستوں کے ملازمین کی حیثیت کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔ محولہ بالا ریگولیشن کے آرٹیکل 4 (1) میں بتایا گیا کہ یہ ملازمین اپنی اپنی سابقہ حیثیت میں حکومتِ مغربی پاکستان کے ملازم تصورہوں گے۔ تاہم اس آرٹیکل کے شق (2) کے تحت یہ شرط بھی رکھی گئی کہ صوبائی حکومت ان ملازمین پر ملازمت کے لیے لاگو ہونے والی شرائط اور لوازمات طے کرسکتی ہے۔ یہی شق بعد میں مذکورہ سابقہ ریاستوں کے ملازمین کی کثیر تعداد کے لیے دردِ سر بنی۔ اس لیے کہ ڈپٹی کمشنر سوات نے سابقہ حکم ران یا والیِ سوات کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مختلف درجوں کے ڈھیر سارے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کیا اور جو باقی بچے اُن کو اُن کی سروس کو صوبائی حکومت کی سروس ڈھانچے میں ضم کرنے میں کئی ایک مشکلات و مصایب کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ بعض افراد کو یہ تفصیل یہاں ناموزوں اور غیر ضروری نظر آرہی ہو، لیکن آگے جاکر آنے والی باتوں کو اس کے بغیر سمجھنا مشکل ہوگا۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یکم جولائی 1970ء سے صوبہ مغربی پاکستان یا ون یونٹ کا خاتمہ کیا گیا اور اُس وقت کے مغربی پاکستان کے سابقہ صوبوں کو بہ حال کیا گیا۔ لہٰذا اُس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (اب خیبر پختونخوا) کی صوبائی حیثیت کو بھی بہ حال کیا گیا اور ضلع سوات کو اس صوبے کا حصہ بنایا گیا۔ اس وجہ سے سابقہ ریاستِ سوات کے ملازمین کو بعد میں صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کی صوبائی حکومت کی سروسز میں ضم کیا گیا۔
اب ذکر ہوجائے محولہ بالا ریگولیشن کے اُس حصے کا جو آگے جا کر عدالتی اورقانونی پیچیدگیوں کا سبب بنا اور جس کی بنا پر ”رواج نامہ سوات“مرتب و تدوین کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ یہ حصہ اس ریگولیشن کا آرٹیکل 7 ہے جو کہ بتاتا ہے کہ:
7. Continuance of Laws.- Subject to this Regulation, all laws, including Regulations, Orders, rules, notifications and customs having the force of law, with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Legislature, as were in force in the specified territories or any part thereof, immediately before the commencement of this Regulation, shall, so far as applicable, continue in force, until altered, repealed or amended by the competent authority.
یعنی کہ اس ریگولیشن کے تحت، تمام قوانین، بہ شمول ریگولیشنز، احکام، ضوابط، نوٹیفکیشنز اور ایسی روایات جو کہ قانون کا درجہ رکھتی ہوں، صوبائی مجلس قانون ساز کے دائرہئ اختیار میں کسی بھی معاملے کے ضمن میں، جیسا کہ ان مخصوص علاقوں یا ان کے کسی حصہ میں ان کا اطلاق اس ریگولیشن کے نفاذ سے فوری قبل تک تھا، جہاں تک نافذہیں، اُس وقت تک نافذالعمل رہیں گے جب تک کہ مجاز اتھارٹی انھیں بدل نہ دے، واپس نہ لے یا ان میں ترمیم نہ کردے۔
اس نے نئی ضلع سوات میں انتشار اور بے یقینی کی کیفیت پیدا کردی۔ اس لیے کہ ابھی تک باقاعدہ طور پر مرتب شدہ شکل میں قوانین و ضوابط کا ایسا کوئی مجموعہ موجود نہیں تھا، لہٰذایہ بات نئی انتظامی مع عدالتی افسران کے ہاتھ میں رہی کہ وہ اپنی صواب دید اوردانش کے مطابق رواج کی تعریف و توجیہہ کریں۔ یہاں رواج کا مطلب رسوم، روایات اور رسمی قوانین کے ساتھ ساتھ ریاستِ سوات کے حکام کے فیصلے اور احکام بھی تھا۔ اس پس منظر میں اگرچہ بعض قوانین سوات میں لاگو کیے گئے اور ان کی خاطرباقاعدہ عدالتیں قائم کی گئیں، لیکن اس سے عام لوگوں کی شکایات کا اِزالہ اس لیے نہ ہوسکا کہ اصل بڑی اہم صورتوں میں اب بھی رواج کا غلبہ اور نفاذ تھا، لیکن یہ کسی مرتب کردہ شکل میں موجود نہیں تھا۔ نہ صرف رواج کی اصطلاح ہی غیر واضح اور مبہم تھی بلکہ دیوانی اور فوج داری معاملات میں اس کی واضح حد بندی بھی نہیں تھی۔ اس وجہ سے اس ابہام کو منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔
یہاں اس کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ والی صاحب نے اپنی سوانح عمری میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ مجھے ہمیشہ مقامی روایات کو تسلیم کرنااور فیصلوں کے عواقب کو جانچنے میں ان کو مدنظر رکھنا ہوتا تھا۔ اور یہ کہ پرانے تنازعات کے ضمن میں پرانے وقتوں سے آنے والے عوامل کو بھی مد نظر رکھا جاتا تھا۔ (ملاحظہ ہو فریڈرک بارتھ کو بیان کردہ والی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری”دی لاسٹ والی آف سوات“ کی 1995ء میں بنکاک سے شائع شدہ ایڈیشن کے صفحات 124 تا 126۔) اور یہی حال ریاستِ سوات کے دوسرے افسران کا بھی تھا۔ چوں کہ ریاستِ سوات میں ایسے عہدوں پرمقامی یعنی ریاستِ سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا تقرر کیا جاتا تھا، اس وجہ سے انھیں رسم و رواج اور مقامی روایات کا خوب علم حاصل ہوتا تھا۔ وہ سب قانون کے پہلو بہ پہلو مقامی رسوم و روایات اور رواج کو جانتے بھی تھے اور اُن کا خیال بھی رکھتے تھے۔
ریاستِ سوات کے خاتمے کے بعد مذکورہ بالا ابہام اور افراتفری کو اس بات نے مزید تقویت دی کہ ایک طرف ڈپٹی کمشنر سوات نے حکم ران ریاستِ سوات کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بہت سارے ایسے سابقہ اہل کاروں کواپنی نوکریوں اور وظائف سے برخاست کیا جو ریاستِ سوات کے قوانین کے علاوہ مقامی رسوم وروایات اور رواج وغیرہ کا علم رکھتے تھے اور دوسری طرف ریاستِ سوات کے علاقوں سے باہر کے لوگ بہ طورِ کمشنر، ایڈیشنل کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیل دار وغیرہ آنے لگے۔ اُن کی اکثریت کی تربیت اور ذہنی نشو و نَما برطانوی سامراجی دور کی تھی جس کا بڑا مقصد عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ اُن کو خاموش رکھنا اور اپنے وقت کو بہتر گزارنا تھا۔
علاوہ ازیں، ریاستِ سوات کے انتظامی اور عدالتی افسران کے برعکس نہ انھیں مقامی رواج اور رسوم وروایات کا علم اور شد بدتھی اور نہ ان کی صحیح پاس داری کی کوئی پروا۔ وہ مقامی اقدار اور اصطلاحات کو بھی سمجھ نہیں پا رہے تھے جو کہ بعض اوقات مسائل حل کرنے کے بہ جائے ان میں اضافوں کا باعث بنتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی مقامی رواج اور رسوم و روایات کی شد بد حاصل کرلیتا، تو اس کا تبادلہ ہو جاتا اور نئے آنے والے کی وجہ سے پھرسے اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے۔
بہ ہر حال چوں کہ سابقہ رواج اور ریاستِ سوات کے احکامات اور فیصلوں کو اب بھی بڑی حد تک قانون اور تمثیل کی حیثیت حاصل تھی اور اس حوالے سے مندرج بالا مسائل بھی تھے، لہٰذا اس کا حل ڈھونڈ نکالنے کے لیے مطالبات سر اُٹھانے لگے۔ اس ضمن میں 1971ء کے شروع میں عوامی سطح پر ”جسٹس لیگ“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی،تاکہ اس پیچیدہ صورتِ حال کے خاتمے کے لیے کام کیا جائے۔ دوسروں کے مطالبات کے علاوہ،سوات کے ایک نمایندہ جرگے نے 1972ء میں صوبائی گورنر کو ایک عرض داشت میں گورنرہی سے 24 جون 1972ء کو سوات کی مختلف سیاسی جماعتوں کے مشترکہ نمایندہ جرگے کی ایک ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے دوسری باتوں کے علاہ اس حوالہ سے تحریرکیا ہے کہ: ”ہماری اس ملاقات میں جو دیگر مسائیل ]مسائل[ جناب کی خدمت میں پیش کئے گئے تھے اُن کو دوبارہ بطور یاددہانی ھم ]ہم[ جناب کی خدمت میں بہ تفصیل ذیل پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ جناب ان پر ھمدردانہ ]ہمدردانہ[ غور فرما کر مشکور فرمائینگے۔
(1) یہاں پر رواج کا لفظ بالکل مبہم اور غیر واضح ھے ]ہے[۔ اور اس کی صحیح تعریف نہیں کی جاسکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ سوات میں رواج تحریری شکل میں مرتب نہیں کیا گیا ھے ]ہے[۔ یہاں پر کوئی تحریری رواج نامہ موجود نہیں ھے ]ہے[ جو معاملات کے طے کرنے میں ھماری ]ہماری[ صحیح رہنمائی کرسکے۔ کسی تحریری رواج نامہ کی عدم موجودگی میں ہمیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ھے ]ہے[۔ اور معاملات کے صحیح اور جلد فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آتی ھے ]ہے[۔ ہم اندھیرے میں بھٹک رھے ]رہے[ ہیں، اور قدم قدم پر ہمیں ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ لہٰذا ھم ]ہم[ جناب سے ملتمس ہیں کہ جب رواج کو موجودہ حالات میں ہمارے لئے رائج الوقت قانون کی حیثیت دی گئی ھے ]ہے[ تو یہ بے حد ضروری ھے ]ہے[ کہ وہ تحریری شکل میں موجود ہو۔ اس کے مرتب کرنے کیلئے ملاکنڈ ایجنسی اور دیر کے تحریری رواج ناموں سے مدد لی جاسکتی ھے ]ہے[، اور یہاں کے تجربہ کار اور قابل افراد کی خدمات سے بھی استفادہ حاصل کیا جاسکتا ھے ]ہے[۔ لہٰذا ہم معروض ہیں کہ ہمارے لئے تحریری رواج نامہ جلد سے جلد مرتب کیا جائے۔
(2) سوات میں فوجداری معاملات کیلئے پاکستانی قانون نافذالعمل ھے ]ہے[ اور اس کے ساتھ ساتھ دیوانی معاملات میں ہمارے رواج کو قانونی حیثیت حاصل ھے ]ہے[ ان دونو ]دونوں [ کے درمیان کوئی واضح حد فاصل موجود نہیں ھے ]ہے[۔ اکثر و بیشتر ایسا دیکھنے میں آیا ھے ]آیا ہے[ کہ دیوانی معاملے کی نوعیت بدلوا کر اس کو فوجداری بنا دیا جاتا ھے ]ہے[۔ اور اس کو رواج سے نکلوا کر پاکستانی قانون کی طرف اسکا رخ موڑ دیا جاتا ھے ]ہے[…… بعض اوقات ایسا ہوتا ھے ]ہے[ کہ جب مالک دوکان ]دکان[ اپنے کرایہ دار سے اپنے دوکان ]اپنی دکان[ کے کرایہ کا مطالبہ کرتا……]ہے[ تو کرایہ دار مالک کو ہراساں و پریشان کرنے کیلئے پولیس تھانہ جا کر مالک دوکان ]دکان[ کے خلاف دفعہ 107 کے…… ]تحت[ مقدمہ درج کر لیتا ھے ]ہے[، اور مالک دوکان ]دکان[ بے چارے کو بے گناہ ہتھکڑیاں پہنا کر تھانے میں حاضری دینی پڑتی ھے ]ہے[ اس کیلئے ہم جناب سے معروض ہیں کہ اس قسم کی ناانصافیوں کا تدارک کیا جائے۔ اور دیوانی و فوجداری معاملات کو اپس ]آپس[ میں خلط ملط نہ کئے جائیں ]کیا جائے[ خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ھے ]ہے[ کہ رواجی معاملات کو فوجداری معاملات میں جان بوجھ کر ہرگز تبدیل نہ کئے جائیں ]کیا جائے[ اگر کسی معاملے میں یہ احتمال موجود ہو کہ اس کو رواج کے تحت فیصلہ کیا جائے یا فوجداری کے تحت تو ایسے معا ملات کے طے کرنے میں رواج کو مقدمہ ]مقدم[ سمجھا جائے۔“ (ملاحظہ ہو، مصدقہ ”نقل از اصل“ صوبائی آرکایوز پشاور میں فائلز آف گورنر سیکریٹریٹ کے بنڈل نمبر 10 کے سیریل نمبر 84 میں۔)
مندرج بالا باتیں ”نمائندہ جرگہ سوات“ کے جس عرض داشت سے لی گئی ہیں، اس پر ان افراد نے دستخط ثبت کیے ہیں۔ ملک شیر محمد خان، محمد رحمان (ایم پی اے)، سہراب خان، محمد اسماعیل، شریف اللہ خان، کشور خان، شہزادہ سلطان روم، شاہ بخت روان صاحب، شیروان خان، بحر بوستان، حاجی عبدالستار، حاجی شیر زادہ، سفیار خان، باچا خان حاجی صاحب، حاجی نور محمد اور عزیزالرحمان۔ (ملاحظہ ہو،محولہ بالا مصدقہ ”نقل از اصل“،بنڈل نمبر 10 کے سیریل نمبر 84 میں۔)
اس حوالے سے سیکریٹری ٹو چیف منسٹر کی طرف سے ڈپٹی کمشنر سوات کو اس درخواست کے پرکھنے اور اس میں اُٹھائے گئے نِکات پر رپورٹ بھیجنے کے جواب میں، اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر سوات، ارشد فاروق، نے اپنے میمورنڈم، مورخہ 25 جولائی 1972ء، میں مندرج بالا نکتہ نمبر (1) کے بارے میں بتایا ہے کہ حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن میں رواج کی ترتیب و تدوین کی غرض سے کچھ عرصہ قبل ایک کل وقتی افسر بہ کارِ خاص (آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی) کا تقرر کیا تھا۔ اس افسر بہ کارِ خاص کا تبادلہ بہ طورِ ممبر پبلک سروس کمیشن کیا گیا اور اس کے بعد اس کام کی خاطر اس کا کوئی نعم البدل مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ایک قابلِ قدر تجویز ہے اور حکومت اس کی خاطر ایک کل وقتی افسر کے تقرر پر جلد سے جلد غورفرمائے۔ اس دفتر نے اس ضمن میں پہلے ہی ابتدائی کارروائی کی ہے۔ (ملاحظہ ہو، محولہ بالا بنڈل نمبر 10 کے سیریل نمبر 84 میں۔)
مذکورہ بالا سیاق و سباق اور تناظر میں ”رواج نامہ سوات“ کی ترتیب و تدوین کا کام بالآخر ڈپٹی کمشنر سوات کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ غلام حبیب کے سپرد کیا گیا۔ غلام حبیب کو اس حوالے سے کچھ تجربہ اس سے پہلے ”رواج نامہ ملاکنڈ“کی ترتیب و تدوین میں کام کرنے کی وجہ سے حاصل ہوچکا تھا۔ لہٰذا 1973ء میں اس نے ”رواجنامہ سوات“ (رواج نامہ سوات) کو مرتب کرنا مکمل کیا اور 3 دسمبر 1973ء کو فضل الرحمان فیضان نے اس کی کتابت مکمل کر لی۔
اس رواج نامے کو ”رواج نامہ سوات“ کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ اُس وقت کے پورے ضلع سوات کے لیے تھا۔ جیسا کہ اس ضلع کو ”ضلع سوات“کا نام دیا گیاتھا، تو اس مناسبت سے اس رواج نامے کو”رواج نامہ سوات“کے نام سے منسوب کیا گیا یا اس کایہ نام رکھا گیا۔
اپنی ”تمھید“ ]تمہید[ میں غلام حبیب نے اُن افراد، جنھوں نے اس رواج نامے کی ترتیب و تدوین کی تکمیل میں اُس سے تعاون اور مدد کی، کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ہے کہ”آخر میں۔ میں ان سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ھوں ]ہوں [ جنھوں نے میرے ساتھ اس رواجنامے کی تکمیل میں تعاون اور امداد کیا ھے ]ہے[۔ علاوہ ازین ]ازیں [ جناب شیخ جمیل احمد صاحب کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کا از حد مشکور ھوں ]ہوں [۔ جنھوں نے مُجھے وقتاً فوقتاً اس سلسلہ میں نھایت ]نہایت[ اہم اور مُفید ھدایات ] ہدایات[ دیئے ھیں ] دی ہیں [۔ نیز انھوں نے جو اپنے ]اپنی[ ذاتی یاداشت ]یادداشت[ رواج پر تحریر کئے ھیں ] کی ہیں [۔ اس رواجنامے ]رواج نامے[ کے مرتب کرنے میں ان سے بُھت ]بہت[ استفادہ کیا گیا۔“ (ملاحظہ ہو، غلام حبیب کی مرتب کردہ اور فضل رحمان فیضان کی کتابت کردہ مذکورہ بالا”رواجنامہ سوات“ کا صفحہ 44۔) اس رواج نامہ میں باچا صاحب کے دور کے دساتیر العمل (دستور العمل کی جمع) یا مختلف علاقوں کے لیے وضع کیے گئے ضوابط، اُس کے فرامین، والی صاحب کے فرامین، دفتری احکامات، فیصلوں، ریاستِ سوات کا مرکزی اور تحصیل سطح پر موجود غیر مطبوعہ ریکارڈ، کچھ مطبوعہ دفتری احکام اور فیصلوں سے انتخاب کرکے شامل کیے گئے، تاکہ انتظامی مع عدالتی اور دوسرے متعلقہ اہل کاروں اور عام لوگوں کی راہ نمائی کے لیے انھیں استعمال کیا جاسکے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں بہ طورِ حوالہ بھی کام میں لایا جا سکے۔
اس رواج نامہ کے مندرجات اُس وقت کی ریاستِ سوات کے علاقوں، جن میں موجودہ اضلاع سوات، بونیر، شانگلہ اور اباسین کوہستان کے اباسین (دریائے سندھ) کے اس طرف کے علاقے شامل تھے، کی رسوم اوردستور، رواج، معاشرے اور سماج وغیرہ کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بیش قیمت معلومات بھی فراہم کرتے ہیں اور یہ مندرجات یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح ان علاقوں میں ان رسوم و دستور، رواج،معاشرے اور سماج میں بہ تدریج، بڑی حد تک غیر محسوس طریقوں سے، اہم اور دور رس نتائج کی حامل تبدیلیاں لائی گئیں یا اُن کے لیے راہ ہم وار کی گئی۔
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ریاستِ سوات میں ابتدا میں سرکاری زبان فارسی تھی اور بعد میں پشتو، تو غلام حبیب نے ”رواج نامہ سوات“ مرتب کرنے کی خاطر جن دستاویزات سے استفادہ کیا ہے وہ زیادہ تر ان دونوں زبانوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان میں بعض دستاویزات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ جب مَیں اپنی پی ایچ ڈی تھیسز کے لیے ضلعی محافظ خانہ سوات میں ریاستِ سوات کے ریکارڈ سے استفادے کی خاطر اس کا مطالعہ کر رہا تھا، تو جن دستاویزات سے یہ رواج نامہ مرتب کیا گیا تھا، اُن میں سے اکثر ایک فائل میں موجود تھیں۔
کسی ایک زبان سے دوسری میں ترجمہ ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں پر مکمل عبور درکار ہوتا ہے۔ چوں کہ غلام حبیب کی تعلیمی استعداد اتنی نہیں تھی کہ وہ فارسی، پشتو، انگریزی اور اُردو زبانوں پر مکمل عبور رکھتا، لہٰذا اُس سے اِس رواج نامہ کو اُردو زبان میں ترجمہ کرکے مرتب کرنے میں زبان و بیاں کی ڈھیر ساری غلطیاں ہوئی ہیں، جن میں سے بعض نہایت اہم اُمور سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُس وقت کے اربابِ اختیار اس بات کا ادراک کرکے اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔اس وجہ سے وہ غلطیاں اس رواج نامہ میں باقی رہ گئیں۔
اس بابت فضل رازق شہاب صاحب بھی اکثر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے اور جولائی 2022 ء میں بھی سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں غلام حبیب کے ترجمے میں غلطیوں کی طرف اشارہ کیا تھااور لکھا تھا کہ ”یہاں عورت (خزہ) سے مراد بیوی ہے، پھر پشتو اصطلاح ’دہ خزے نہ پوزہ پریکول‘ کا مطلب بیوی کی ناک کاٹنا لکھنا چاہیے تھا۔“ چوں کہ والی صاحب کے ان حکم ناموں میں ”خزہ“ بہ معنی ”عورت“ نہیں بلکہ بہ تخصیص”اپنی بیوی“ استعمال ہوا ہے، اس لیے میری محولہ بالا انگریزی کتاب ”سوات سٹیٹ (1915-1969)‘ ‘ کے صفحہ 200 اور اس کے محولہ بالا اُردو ترجمہ ”ریاستِ سوات (1915 ء تا 1969ء)“ کے صفحہ 171 پربالترتیب وائف اور بیو ی درج ہیں۔ اور میری انگریزی کتاب”سوات تھرو دی میلینیا: فرام پری ہسٹری ٹو دی آرلی ٹونٹیئتھ سینچری“ (شائع کردہ: اُکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2021ء)، کے صفحہ 152 پر بھی وائف (بیوی) ہی لکھا ہے۔
اس حوالے سے والی صاحب کے دوحکم ناموں کے الفاظ یوں ہیں:
1:۔ دا زما حکم دے: ھر سڑی چہ د خپلے خزے نہ پوزہ پریکڑہ۔نو ھغہ سڑے بہ دوہ زرہ روپئے جرمانہ ورکوی۔ او دغہ خزے لہ بہ طلاق ھم ورکوی۔ (یعنی: یہ میرا حکم ہے کہ جس مر د یعنی شوہر نے اپنی بیوی کی ناک کاٹ ڈالی، تو وہ دو ہزارروپے جرمانہ ادا کرے گا۔ اوراُسی بیوی کو طلاق بھی دے گا۔)
2:۔ حُکمنامہ: ھر سڑی چہ دَ خپلے خزے نہ پوزہ پریکڑہ نو ھغہ سڑے بہ دوہ زرہ روپئے جرمانہ ورکوی یا اوہ کالہ قید۔ او دغہ خزے لہ بہ طلاق ہم ورکوی۔ (یعنی: حُکم نامہ: جس مرد یعنی شوہرنے اپنی بیوی کی ناک کاٹ ڈالی، تو وہ دو ہزارروپے جرمانہ ادا کرے گا یا سات سال قید کاٹے گا۔ اور اُسی بیوی کو طلاق بھی دے گا۔)
والی صاحب کے یہ دونوں حکم نامے چھاپ شدہ ہیں۔ان میں حکم نامہ نمبر 1 پر نمبر 49 اور تاریخ 25 نومبر1963ء درج ہے۔ حکم نامہ نمبر2 پر چھاپ شدہ نمبر اور تاریخ درج نہیں۔ تاہم بعد میں،غالباً ریاستِ سوات کے خاتمے کے بعد، کسی نے اس پر ہاتھ سے نمبر 46 اور تاریخ 25 نومبر 1963ء درج کی ہے۔ کئی سال بعد،2021ء میں، اس ”رواج نامہ سوات“ کو دو افراد کی طرف سے پھر سے شائع کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہاں پر ان دونوں نئے شائع شدہ نسخوں کے حوالے سے بھی کچھ ذکر ہوجائے کہ ان دونوں نسخوں میں غلام حبیب سے ترجمہ کرنے اور زبان و بیاں میں جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں، آیا اُن کو دور کرکے اُن کا اِزالہ کیا گیا ہے یا یہ نسخے مزید اُلجھنیں پیدا کر گئے ہیں؟
ان میں سے پہلا نسخہ شعیب سنز، پبلشرز اینڈ بُک سیلرز، مینگورہ، سوات، کا جولائی 2021ء میں شائع کردہ ہے۔ اس نسخے کا ناشر اپنی طرف سے اس رواج نامے کے ایک تعارفی جائزے میں لکھتا ہے کہ”کتاب کی گذشتہ اشاعت میں زبان و بیان کی غلطیاں بہت زیادہ تھیں اور دوسرا اسے ایک بے ہنگم سائز میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابت اور طباعت بھی معیاری نہیں تھی۔ اس لئے ہم نے اس کی موجودہ اشاعت میں زبان و بیان کی غلطیاں درست کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے کمپیوٹر کے نوری نستعلیق کے خوب صورت فونٹ کے ساتھ ایک موزوں سائز میں دیدہ زیب انداز میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سابق ریاستِ سوات کی یہ تاریخی دستاویز ہر خاص و عام تک پہنچے اور وہ اس سے بہ وقتِ ضرورت استفادہ کرسکیں۔ “ (ملاحظہ ہو، اس محولہ نسخے کا صفحہ37۔)
غلام حبیب کے مرتب کردہ اور اُسی حالت میں شائع کردہ نسخے اور شعیب سنز، پبلشرز اینڈ بک سیلرز، کے مذکورہ بالا شائع کردہ نسخوں کے سرسری تقابلی جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ غلام حبیب نے بعض اہم اُمور کے ضمن میں جو فاش غلطیاں کی ہیں، وہ اس نسخے میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اندراج نمبر 193 کے ذیلی نمبر2 میں کسب گر لوگوں کو قومی خدمت کے عوض تفویض کی گئی اراضی کو ”سیریئ“ کہنا۔ اس طرح اندراج نمبر 650 میں یہ اندراج کہ ”لوہاران، درزگر، نشانچی اور جالہ وان، کسب گر لوگوں کی اراضی ہوتی ہے اور پشتون قوم کا دفتر ہوتا ہے۔“ حالاں کہ مَیں نے اپنی انگریزی کتابوں ”سوات سٹیٹ (1915-1969): فرام جینسسز ٹو مرجر“ کے صفحہ 236 اور ”لینڈ اینڈ فارسٹ گورننس اِن سوات: ٹرانزیش فرام ٹرائبل سسٹم ٹو سٹیٹ ٹو پاکستان“ (شائع کردہ: اُکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2016 ء)کے صفحہ نمبر 62 پر مذکورہ حکم نامے کا صحیح مطلب انگریزی میں دیا ہے۔ اور اس ترجمے کے اصل ماخذ کا حوالہ اولذکر کتاب کے صفحہ نمبر 259 پر نوٹ نمبر 145 اورمؤخرالذکر کتاب کے صفحہ نمبر 118 پر نوٹ نمبر 58 میں دیا ہے اور ان نوٹوں میں اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ رواج نامہ سوات میں درج ترجمہ میں غلطی ہے۔ علاوہ ازیں اولذکر کتاب کے اُردو ترجمہ ”ریاستِ سوات (1915ء تا 1969ء)“ کے صفحہ نمبر 198 پر بھی اس فرمان کے متعلقہ حصے کا صحیح ترجمہ اُردو میں درج ہے۔ مزید یہ کہ پشتو زبان میں اصل حکم نامہ بھی مؤخرالذکر کتاب میں بہ طورِ ثبوت بہ طورِ نتھی (Annex) 27 دیاگیا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ دوسری تحریر میں زبان و بیاں کی غلطیاں اُس تحریر کو پڑھ کرکسی حد تک دور کی جاسکتی ہیں لیکن ترجمہ کی صورت میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی ترجمہ کی گئی تحریر کی غلطیوں کو دور کرنا اُس ترجمے کا اصل دستاویزسے موازنہ کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس طرح کی تصحیح کی کوشش میں تصحیح کے بہ جائے مزید غلطیاں ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ کوئی مصور کسی ایسے فرد کا مجسمہ یا شبیہ تیار کرے جس کا چہرہ بدصورت ہو۔ اُس بدصورتی کو کم کرنے کی خاطر مصور چہرے کی اصل شبیہ کے بہ بجائے اُسے اپنی طرف سے کسی حد تک خوب صورت بنائے۔ کوئی دوسرا فرد اس شبیہ کو دیکھ کر یہ فرض کرلے کہ مصور نے چہرے کی اصل شبیہ پیش نہیں کی ہے، لہٰذا اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی خاطر وہ فرد اس شبیہ کو اپنے خیال یا زعم میں درست کرنے کی خاطر اس باقی نظر آنے والی بدصورتی کو ختم کرکے ایک خوب صورت چہرے کی شبیہ بنالے۔ اس طرح اُس مجسمہ والے چہرے کی بد صورتی تو دور ہوجائے گی، لیکن وہ شبیہ اصل چہرے کی شبیہ یا وہ مجسمہ اس فرد کا صحیح یا اصل مجسمہ نہیں رہے گا۔
کچھ ایسی صورتِ حال یہاں نظر آرہی ہے۔ اس کا تفصیلی تجزیہ ایک مضمون میں ممکن نہیں۔ تاہم یہاں پر شعیب سنز،پبلشرز اینڈ بُک سیلرز، کے محولہ بالاشایع کردہ نسخے سے ”فہرستِ مضامین“ میں دی گئی سرخیوں اور کتاب میں دی گئی سرخیوں میں سے بہ طورِ نمونہ کچھ پیش کی جاتی ہیں جن سے قارئین خود باقی کتاب میں زبان و بیاں کی غلطیوں کی درستی کا اندازہ لگا لیں گے۔
مضمون کو زیادہ طوالت سے بچانے کی خاطر ”فہرستِ مضامین“ میں دی گئی سرخیاں نمبر1 اور کتاب میں دی گئی سرخیاں نمبر 2 کے طور پر دی جاتی ہیں، ملاحظہ ہوں:
1:۔ ”دشمن کو حد بندی کے اندر جانے کی اجازت کب دی جائے گی؟“
2:۔ ”دشمن کو حد بندی کے اندر جانے کی اجازت“۔
1:۔”دشمن کے رشتہ داروں کو ایذا رسانی کا حق کسی کو حاصل نہیں“۔
2:۔ ”دشمن شخص کے رشتہ داروں کو ایذا رسانی کا حق کسی کو حاصل نہیں“۔
1:۔”مفرور قاتل کی جائیداد کا حکم“۔
2:۔ ”مفرور قاتل کی جائیداد“۔
1:۔ ”ایک مثال: دستورالعمل غوربند مورخہ03-09-1967“۔
2:۔”مثال کے طور پر یہاں دستور العمل غور بند مورخہ13-09-1967 درج کیا جاتا ہے“۔
1:۔ ”عام جنگ و جدل میں زد و کوب سے کسی شخص کی ہلاکت“۔
2:۔ ”عام جنگ و جدل میں زد و کوب سے کسی کاہلاک ہوجانا“۔
1:۔ ”میراث کے لیے قتل میں مقتول کی جائیداد اس کی بیوہ کے حوالے کی جاسکتی ہے“۔
2:۔”جب میراث کے لیے قتل ہوجائے تو مقتول کی جائیداد اس کی بیوہ کے حوالہ کی جاسکتی ہے“۔
1:۔ ”غلطی سے کسی کو قتل کردینا “۔
2:۔ ”غلطی سے کسی کو قتل کرنا “۔
1:۔ ”خاندان اخون زادگان میں کسی کو قتل کرنا“۔
2:۔ ”خاندان اخونزادگان سے کسی کو قتل کرنا“۔
1:۔ ”عورت اور مرد کا قتل زنا کاری کے سلسلہ میں“۔
2:۔ ”زنا کاری کے سلسلہ میں عورت اور مرد کا قتل“۔
1:۔ ”گھر سے باہر زنا کاری میں قتل“۔
2:۔ ”گھر سے باہر زنا کاری کا قتل“۔
1:۔ ”زنا بالجبر اور اس کا جرمانہ“۔
2:۔ ”زنا بالجبر اور جرمانہ“۔
1:۔ ”کسی شخص پر اپنی بیوی کے متعلق بدالزامی “۔
2:۔ ”کسی شخص پر اپنی بیوی کے متعلق الزام لگانا “۔
1:۔ ”کسی کو بندوق سے فائر کرکے زخمی کرنا“۔
2:۔ ”کسی کو بہ ذریعہ بندوق زخمی کرنا“۔
1:۔ ”جب چور کے ہاتھوں گھر کا مالک زخمی ہو جائے“۔
2:۔ ”چور کے ہاتھوں جب گھر کا مالک زخمی ہو جائے“۔
1:۔ ”پاگل کے ہاتھ سے کوئی زخمی ہو جائے“۔
2:۔ ”پاگل کے ہاتھ سے جب کوئی زخمی ہوجائے“۔
1:۔’’عورت کی ناک قطع کر دینا“۔
2:۔ ”عورت کی ناک کاٹنا“۔
1:۔ ”عورت کی ناک قطع کرنے کی سزا“۔
2:۔ ”عورت کی ناک کاٹنے کی سزا“۔
1:۔ ”مجروحی میں مرہم پٹی کا معاوضہ“۔
2:۔ ”مجروحی میں مرہم پٹی کی ادائیگی“۔
1:۔ ”سرقے کے بارے میں ایک فیصلے کا نقل“۔
2:۔ ”سرقہ کے بارے میں ایک فیصلے کی نقل“۔
1:۔ ”سرقہ میں بیلگہ پر حلف اٹھانا“۔
2:۔ ”سرقہ میں بیلگہ پر حلف“۔
1:۔ ”مچھلی کا شکاربہ ذریعہئ ڈائنامائٹ اور اطلاع کنندہ کے لیے انعام“۔
2:۔ ”مچھلی کا شکار بذریعہئ ڈائنامائٹ اور رپورٹ کنندہ کے لیے انعام“۔
1:۔”مفروران سے نیک چلنی کا ضمانت لینا“۔
2:۔ ”مفرور سے نیک چلنی کی ضمانت لینا“۔
1:۔”سوات میں نئے مفرور کی آمد“۔
2:۔ ”سوات میں نئے مفروروں کی آمد“۔
1:۔ ”کان کنی اور سمگلنگ وغیرہ“۔
2:۔ ”کان کنی اور سمگلنگ کے بارے میں“۔
1:۔ ”راہ داری کے بغیر سلیپر لے جانا“۔
2:۔ ”بغیر راہ داری سلیپر لے جانا“۔
1:۔ ”بیع کا سٹامپ لکھنے کی شرائط“۔
2:۔ ”بیع کے اسٹامپ لکھنے کی شرائط“۔
1:۔”تمسک کے لکھنے کی شرائط“۔
2:۔ ”تمسک لکھنے کی شرائط“۔
1:۔ ”حکم بنامِ کشور خان مشیر سوات بالا“۔
2:۔ ”حکم بہ نام کشور خان مشیر بر سوات“۔
1:۔”قبضہ اراضی، قابض سے حلف لینا“۔
2:۔”قبضہئ اراضی، قابض کو حلف دینا“۔
1:۔ ”غیر سواتی اگر سوات میں جائیداد خریدے“۔
2:۔ ”باہر کے لوگ جب سوات میں جائیداد خریدیں“۔
1:۔ ”حد براری اراضی بہ ذریعہ قرآن شریف قائم کرنا“۔
2:۔ ”حد براریئ اراضی بہ ذریعہ حلفِ قرآن شریف“۔
1:۔ ”مکانات اور آبادی و کرائے“۔
2:۔”مکانات اور آبادی کے کرائے“۔
1:۔ ”تقسیم حجرہ اور عوضانہ“۔
2:۔ ”تقسیم حجرہ اور عوض“۔
1:۔”پیر باباؒکے بازار میں سڑک کے کنارے تعمیرات“۔
2:۔ ”پیر باباکے بازار میں سڑک کے کنارے آبادی“۔
1:۔”سڑک کے کنارے سے نئے آبادی کا فاصلہ“۔
2:۔ ”سڑک کے کنارے سے نئی آبادیوں کا فاصلہ“۔
1:۔”قمبر اور فضا گٹ کے درمیان سڑک کے کنارے تعمیرات“۔
2:۔ ”قمبر اور فضا گٹ کے درمیان سڑک کے کنارے آبادی کرنا“۔
1:۔ ”رہن اور مالکانہ قبضہ وغیرہ“۔
2:۔ ”رہن اور قبضہ مالکانہ وغیرہ“۔
1:۔ ”از رجسٹر فیصلہ جات نائب وزیر مرکزی دفتر (رہن کے متعلق)“۔
2:۔ ”از رجسٹر فیصلہ جات نائب وزیر مرکزی دفتر۔ صفحہ نمبر 9“۔
1:۔ ”جرگہئ کالام (رہن نامہ بیع نامہ و اقرار نامہ کے بارے میں)“۔
2:۔ ”جرگہئ کالام رہن نامہ، بیع نامہ و اقرارنامہ کے بارے میں“۔
1:۔ ”رہن کی شرائط (دستور العمل غور بند)“۔
2:۔ ”رہن کی شرائط دستورالعمل تحصیل غور بند“۔
1:۔ ”دعوائے شفع دائر کرنے کا میعاد“۔
2:۔”دعویِٰ شفع دائر کرنے کی میعاد“۔
1:۔ ”تنازعاتِ منقولہ جائیداد“۔
2:۔ ”تنازعاتِ منقولہ“۔
1:۔ ”سرکاری ٹھیکہ کو دوسرے شخص پر فروخت کرنا“۔
2:۔ ”سرکاری ٹھیکہ دوسرے پر فروخت کرنا“۔
1:۔ ”قلنگ کے بارے میں دستور العمل چکیسر“۔
2:۔ ”دستورالعمل چکیسر“۔
1:۔ ”حقِ آب پاشی“۔
2:۔ ”حقِ آب پاشی کے بارے میں“۔
1:۔ ”آب پاشی کے لختی(نالی) توڑنا“۔
2:۔ ”آب پاشی کے لختے (نالہ) توڑنا“۔
1:۔ ”مہر اور مہر میں دیئے ہوئے جائیداد کی فروخت وغیرہ“۔
2:۔ ”مہر اور مہر میں دی گئی جائیداد کی فروخت وغیرہ“۔
1:۔ ”خاوند کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مہر میں دئیے ہوئے جائیداد کو رہن رکھے یا فروخت کرے“۔
2:۔ ”خاوند کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مہر میں دی گئی جائیداد کو رہن یا فروخت کرے“۔
1:۔ ”مہر کی معافی نہیں ہوسکتی“۔
2:۔ ”مہر معاف نہیں ہوسکتی“۔
1:۔ ”نفقہ کے لیے دیا ہوا جائیداد فروخت یا رہن نہیں ہوسکتا“۔
2:۔ ”نفقہ کے لیے دی ہوئی جائیداد فروخت یا رہن نہیں ہوسکتی“۔
1:۔ ”بیوہ عورت کے ساتھ زبردستی نکاح کرنا“۔
2:۔”بیوہ عورت کے ساتھ زبردستی سے نکاح کرنا“۔
1:۔”طوائف لڑکی کا نکاح“۔
2:۔ ”ناچنے والی لڑکی کا نکاح“۔
1:۔ ”نکاح نامے کے لیے لڑکی کا عدالت میں آنا ضروری نہیں“۔
2:۔”نکاح نامے کے لیے لڑکی کی حاضری عدالت میں ضروری نہیں“۔
1:۔”طلاق نامہ لکھنا“۔
2:۔ ”طلاق نامے کا لکھنا“۔
1:۔ ”تمباکو کی بھٹی کی شرائط“۔
2:۔ ”تمباکو بھٹی کی شرائط“۔
1:۔ ”دکانداروں پر حیثیت ٹیکس کی شرح“۔
2:۔ ”دکان داروں کے لئے حیثیت ٹیکس کی شرح“۔
1:۔ ”شاہی سیر کا حکم“۔
2:۔ ”شاہی سیر(جنس کی شکل میں ایک طرح کا ٹیکس) کا حکم“۔
1:۔ ”مختلف اجناس کے اجارے کے مختلف طریقے“۔
2:۔ ”مختلف اجناس کا اجارہ جداگانہ طریقے پر“۔
1:۔ ”اجارہ وغیرہ کے رقومات کی وصولی بہ ذریعہئ نوکران“۔
2:۔ ”اجارہ وغیرہ کی رقومات کی وصولی بہ ذریعہ نوکران“۔
1:۔ ”اجارہ میں خسارہ اٹھانے والے کو دوبارہ اجارہ نہیں دیا جاسکتا“۔
2:۔”اجارے میں خسارہ اٹھانے والے کو دوبارہ اجارہ نہیں دیا جاسکتا“۔
1:۔ ”اجارہ وغیرہ کے بارے میں ضروری ہدایات“۔
2:۔ ”اجارے وغیرہ کے بارے میں ضروری ہدایات“۔
1:۔ ”اسلحے کے لائسنس کے لیے شرطِ جائیداد“۔
2:۔ ”اسلحہ لائسنس کے لیے شرطِ جائیداد“۔
1:۔ ”اسلحے کا لائسنس کس کو دیا جاتا ہے؟“۔
2:۔ ”اسلحہ لائسنس کس کو دیا جاتا ہے؟“
1:۔ ”حکم بابت چھری و کمانی دار چاقو“۔
2:۔ ”حکم بابت چھری و چاقوکمانی دار“۔
1:۔”شادی بیاہ کے موقع پر فائر کرنا“۔
2:۔ ”شادی بیاہ کے موقع پر فائرنگ کرنا“۔
1:۔ ”شادی اور ختنے کے موقعوں پر مہمانوں اور ناچ گانے وغیرہ پر پابندی“۔
2:۔ ”شادی اور ختنے کے موقعوں پر مہمانوں اور راگ و رنگ وغیرہ پر پابندی“۔
1:۔ ”فاتحہ خوانی والے گھر سے کھانا کھانے پر پابندی“۔
2:۔”فاتحہ خوانی والے گھر سے چائے اور کھانے پر پابندی“۔
1:۔ ”کسی کے آمد پر آرائشی دروازے بنانا“۔
2:۔ ”کسی کے آمد پرسجاوٹ کے دروازے بنانا“۔
1:۔ ”متفرق سوشل اُمور برائے علاقہ شانگلہ پار“۔
2:۔ ”متفرق سوشل اُمور شانگلہ پار“۔
1:۔ ”جنگل میں آتش زدگی، درختوں کی خلاف قانون کٹائی“۔
2:۔”جنگل میں آتش زدگی اور خلافِ قانون کٹائی“۔
1:۔”جنگل کو آگ لگانا اور جرمانہ (دستور العمل کالام)“۔
2:۔ ”جنگل کو آگ لگانے کا جرمانہ (دستور العمل کالام)“۔
1:۔”درخت کو جڑوں سے کاٹنا منع ہے“۔
2:۔ ”درخت کو جڑوں سے کاٹنا ممنوع ہے“۔
1:۔ ”ممنوعہ پہاڑ سے جلانے کی لکڑی لانے پر پابندی“۔
2:۔ ”ممنوعہ پہاڑ سے جلانے کی لکڑی پر پابندی“۔
1:۔ ”سرکاری ٹھیکہ داروں کے لیے لکڑی“۔
2:۔ ”سرکاری ٹھیکے داروں کے لیے لکڑی“۔
1:۔ ”سامان چالان کے بہ غیر نہیں لے جایا جاسکتا“۔
2:۔ ”سامان بہ غیرچالان کے نہیں لے جایا جاسکتا“۔
1:۔ ”چارے وغیرہ کے لیے درختوں کی شاخ تراشی اور کاٹنا“۔
2:۔ ”گھاس اور چارے کے لیے درختوں کی شاخ تراشی اور کاٹنا“۔
1:۔ ”سرکاری ملازمان“۔
2:۔ ”سرکاری ملازمین، فوج اور پولیس“۔
1:۔ ”سرکاری ملازمان اور عوامی مطالبات“۔
2:۔”سرکاری ملازمین اور قومی مطالبات“۔
1:۔ ”عاملان اور منصفان کسی کے ساتھ چائے روٹی نہیں کھا سکتے“۔
2:۔ ”عاملان اور منصفان کسی کے ساتھ چائے کھانا نہیں کھا سکتے“۔
1:۔ ”غمی اور شادی کے سلسہ میں“۔
2:۔ ”غمی اور شادی کے سلسہ میں چھٹی“۔
1:۔ ”سابقہ ریاستِ سوات کے سول ملازمین کے لیے معاوضہ کی تجویز“۔
2:۔ ”ریاستِ سوات کے سول ملازمین کے لیے معاوضہ کی تجویز۔ قواعد و ضابطہ“۔
1:۔ ”سپاہی کے لیے پکا پکایا راشن“۔
2:۔ ”سپاہی کے لیے پکا راشن“۔
1:۔ ”باہر کی ڈیوٹی کے لیے عملہئ ٹیلی فون کو یومیہ سفر خرچ“۔
2:۔ ”باہر کی ڈیوٹی کے لیے عملہئ ٹیلی فون کو مندرجہ ذیل یومیہ سفر خرچ دیا جاتا ہے“۔
1:۔ ”کون سے افسران موٹر ٹیکس سے معاف ہیں؟“
2:۔ ”کون سے افسر موٹرکے ٹیکس سے معاف ہیں؟“
1:۔ ”گوجران کی جائیداد و پیش امامان کے بارے میں“۔
2:۔ ”گوجران کی جائیداد اور پیش امامان کے بارے میں“۔
مزید یہ کہ زبان و بیاں کی غلطیاں درست کرنے کی کوشش میں کئی ایک درست نام غلط کر دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پرصفحہ نمبر 113 پر”مقدر“ کو”مقتدر“اور ”کبات“ کو”قباد“ کرنا۔ اس طرح ”مواجبات“ اور ”مواجب“ کو ”محاجبات“ اور ”محاجب“ کرنا۔ معلوم نہیں کہ ”محاجبات“ اور”محاجب“ کس زبان کے الفاظ ہیں، البتہ یہ پشتو میں ”ماجب“ اور اُردو میں ”مواجب“ ہیں۔ علاوہ ازیں ٹائپنگ اور پروف کی غلطیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
”رواج نامہ سوات“ کے 2021ء میں شائع کردہ دوسرے نسخے پر اگرچہ ”لقمان گرافکس اینڈ پبلشرز سوات“ کو ناشر لکھا گیا ہے، لیکن درحقیقت یہ نسخہ ڈپٹی کمشنر سوات نے شائع کیا ہے۔ یہاں اس کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ بعض افراد کتاب کو کمپوز کرکے اس کی کمپوزنگ اور اشاعت کے تمام اخراجات صاحبِ کتاب یا کسی دوسرے فرد وغیرہ سے وصول کرتے ہیں اور اس کے باوجود کتاب پر اپنا اور اپنے ادارے کا نام بہ طورِ ناشرلکھ دیتے ہیں۔
دراصل کتاب کا ناشر وہ ہوتا ہے جو اس کی اشاعت کے اخراجات برداشت کرتا ہے، خواہ وہ مصنف خود ہو، یا کوئی دوسرا فرد یا ادارہ۔ جو افراد یا ادارے کتاب کو کمپوز کرکے اپنا معاوضہ وصول کرتے ہیں، وہ پبلشرز کے زمرے میں نہیں آتے۔ ایک سادہ سی مثال یا سوال: اخبارات، رسائل و جرائد وغیرہ کے پبلشرز اُن کے ٹائپ اورڈیزائن کرنے والے ہوتے ہیں یا وہ جو اُن پر سرمایہ کاری کرتے ہیں؟
اس نسخہ کے”دیباچہ“ میں ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان صاحب رقم طراز ہے کہ”اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ’رواج نامہ سوات‘ کیا ہے۔ مختصر الفاظ میں رواج نامہ سوات ’جدید ریاست سوات‘کی تاریخ ہے۔ یہ والیئ سوات کی حکمرانی میں صادر کیے جانے والے جملہ احکامات، ہدایات، فیصلے اور مشیروں کے اقدامات کی ایک دستاویز ہے۔ رواج نامہ سوات کو مختلف ادوار میں سوات میں تعینات سرکاری افسران بالخصوص 1973ء کے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شیخ جمیل احمد صاحب، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر محمد عثمان خان ہاشمی صاحب، غلام حبیب خان سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس اور سوات کے مایہ ناز ادیب، شاعر اور خطاط جناب فضل رحمان فیضان صاحب نے اَن تھک محنت اور کئی سال کی عرق ریزی کے بعد دستاویزی شکل دے دی۔“ اور یہ کہ ”رواج نامہ کے تین ایڈیشن مختلف ادوار میں غیر معیاری انداز میں شائع ہوئے۔“
اگرچہ ڈپٹی کمشنر جنید خان صاحب کے تحریر کردہ ”دیباچہ“ میں مبالغہ آمیزی پائی جاتی ہے لیکن طوالت سے بچنے کی خاطر اُن میں سے دوسری باتوں پر بحث سے اجتناب کرتے ہوئے صرف بعض مندرجات کے ضمن میں بات ہو جائے۔
پہلی بات یہ کہ جیسا کہ پہلے دی گئی تفصیل سے واضح ہے کہ اس رواج نامہ کو دستاویزی شکل دینے میں ”کئی سال کی عرق ریزی“ نہیں کی گئی۔ دوسری بات یہ کہ، دوسرے شواہد کے علاوہ، ڈپٹی کمشنرسوات جنید خان صاحب کے اپنی مندرج بالا باتیں اُس کے شائع کردہ اِس ایڈیشن پر مندرج اِن الفاظ پر سوالیہ نشان ہیں کہ ”مرتب کنندہ…… جنید خان (ڈپٹی کمشنر سوات)۔“ اگر، بہ قولِ ڈپٹی کمشنر صاحب، مذکورہ بالاافراد”نے ان تھک محنت اور کئی سال کی عرق ریزی کے بعد“اس رواج نامہ کو دستاویزی شکل دے دی تھی اور اِس سے قبل ”اس رواج نامہ کے تین ایڈیشن مختلف ادوار میں“ شائع ہوئے ہیں، تو پھر ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان صاحب نے اسے کیسے مرتب کیا؟ ہاں! ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان صاحب ”رواج نامہ سوات“ کے اِس یا زیرِ نظر ایڈیشن کا شائع کنندہ ہے۔ اس ”رواج نامہ سوات“ کے مرتب کرنے کوغلام حبیب کے بجائے ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان صاحب سے
منسوب کرنا درست نہیں۔
”رواج نامہ سوات“ کے اس زیرِ بحث نسخے میں دوسری نا مناسب باتوں میں اس نسخے سے رواج نامہ سوات پر غلام حبیب کی لکھی گئی ”تمھید“ ]تمہید[ کا حذف کرنا، یا اس کا شامل نہ کرنا، ہے اور فیضانؔ صاحب کا بہ طورِ مولف لکھ دینا ہے۔ فیضانؔ صاحب نے تو رواج نامہ سوات کے اولین نسخے کی کتابت کی تھی جو کہ خود اُس کی اپنی قلم کی تحریر کے مطابق اُس نے 3-12-73 یعنی 3 دسمبر 1973ء کوحتمی شکل د ی تھی۔ لہٰذا فیضانؔ صاحب اس رواج نامے کا مولف نہیں۔اس کا مولف اور مرتب کنندہ غلام حبیب ہے، جس کی اس کام میں دوسرے افراد نے معاونت کی ہے اور اِس کا، جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، اُس نے اپنی لکھی ہوئی ”تمھید“ ]تمہید[ میں اقرارکیا ہے اور اُن افراد کا شکریہ ادا کیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ فیضان صاحب کا بیٹاشمس الاقبال شمسؔ یہ شکوہ کررہا تھا کہ ”رواج نامہ سوات“ کو میرے والد رات گئے تک بیٹھ کر لکھتا تھا اور اس پر مرتب کنندہ کا نام غلام حبیب کا ہے۔ شمسؔ کی بات اپنی جگہ اس طرح درست ہے کہ فیضانؔ صاحب اس کی کتابت کرتا تھا۔ لہٰذااُسے رات دیر تک اس کی خاطر بیٹھنا پڑتا تھا، لیکن فیضانؔ صاحب کے اس کے مولف نہ ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے، جن دستاویزات سے یہ رواج نامہ مرتب کیا گیا ہے، اُن میں سے اکثر کی کاپیاں ضلعی محافظ خانہ سوات میں ایک فائل میں،مَیں پڑھ چکا ہوں۔ اُن دستاویزات میں اس رواج نامہ کی خاطر جو قطع برید کی گئی ہے اور یا اُن پر کچھ لکھا گیا ہے، اُن کا خط فیضانؔ صاحب جیسا خوش خط نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل دستاویزات پر کام فیضانؔ صاحب نے نہیں کیا اور اس وجہ سے وہ اس رواج نامے کا مولف اور مرتب کنندہ نہیں بلکہ کاتب ہی ہے، جو، جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے،اُس وقت کے شایع شدہ نسخے کے آخر میں تحریر ہے۔
علاوہ ازیں، جیسا کہ پہلے ہی بتایا گیا ہے، غلام حبیب نے اپنی لکھی گئی ”تمھید“ ]تمہید[ میں رواج نامہ سوات کی تکمیل میں اُس سے تعاون اور امداد کرنے والے سب حضرات کا شکریہ ادا کیا ہے، لیکن جس فردِ واحد کا نام لے کر اس کا شکریہ ادا کیا گیاہے، وہ شیخ جمیل احمد صاحب کمشنر ملاکنڈ ڈویژن ہے۔ اُس نے ڈپٹی کمشنر سوات محمد عثمان ہاشمی صاحب کا نام لکھ کر ذکر نہیں کیا، جو اس بات کا غماز ہے کہ محمد عثمان ہاشمی صاحب نے اِس کام میں اُس کے ساتھ قابلِ ذکر معاونت نہیں کی، ورنہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں اُس کے ماتحت کام کرنے والے ایک سپرنٹنڈنٹ کی کیا مجال یا جرات کہ معاونت کے باوجود ڈپٹی کمشنر صاحب کے نام کا ذکر نہ کرے۔
اگرچہ زیرِ نظر نسخے میں زبان و بیاں کی غلطیاں دور کرنے کا دعوا نہیں کیا گیا ہے، لیکن اس حوالے سے کسی حدتک اس میں کام کرنے کی کوشش نظر آرہی ہے، لہٰذا یہ بھی ہو بہ ہو غلام حبیب والا نسخہ نہیں رہا۔ اس میں بھی سیریئ اراضی کے حوالے سے وہ غلطیاں دور نہیں کی گئیں جن کا پہلے ہی ذکر کیاجا چکا ہے۔
ڈپٹی کمشنرسوات جنید خان صاحب اپنے عہدے کے بل بوتے پر اور اس کے صواب دید پر موجود فنڈز یا رقوم کی بنیاد پر اس پوزیشن میں تھا کہ ماہرینِ زبان و تراجم سے ”رواج نامہ سوات“ کے مندرجات کے اصل ماخذوں (ڈپٹی کمشنر صاحب کے لیے اصل ماخذوں تک رسائی مشکل نہیں تھی) سے موازنہ کر کے اس میں موجود زبان و بیاں کی غلطیاں حقیقی معنوں میں دور کر دیتے۔ اس ضمن میں احمد فوادؔصاحب سے موزوں ترین فرددوسرا کوئی نہیں، جس کو اُن زبانوں پر عبورحاصل ہے جو اس رواج نامہ کے مرتب کرنے میں استفادہ کے لیے درکار ہیں۔
جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہوچکا ہے کہ غلام حبیب متعلقہ زبانوں کا ماہر نہیں تھا، یا اُس کو اُن زبانوں پر مکمل عبور حاصل نہیں تھا، لہٰذا اُس سے اس طرح کی غلطیاں سرزد ہونا یا رِہ جانا انہونی نہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کا شائع کردہ نسخہ فونٹ، سائزاور دیدہ زیبی میں شعیب سنز، پبلشرز اینڈ بُک سیلرز، کے شائع کردہ نسخے سے بہت بہتر ہے لیکن زبان و بیاں کی غلطیاں دور نہ کرنے اور پروف کی ڈھیر ساری فاش غلطیوں کے رہ جانے کی وجہ سے اس کی دیدہ زیبی کے باوجود یہ نسخہ اپنا وقار کھوبیٹھاہے۔
بہ طورِ مثال”دعویٰ دیرینہ“ کے بہ جائے ”دعویٰ درینہ“،”(دستورالعمل غوربند)“ کے بہ جائے ”(بدستور العمل غوربند)“، ”ازالہ حیثیتِ عرفی“ کے بہ جائے ”ازالہ حیثیتِ فی عر“، ”معدنیات“ کے بہ جائے ”نیا معدت“، ”تمسکات“ کے بہ جائے ”نمسکات“، ”تمسک“ کے بہ جائے ”نمسک“، ”کشور خان“ کے بہ جائے ”کشور خام“، ”حد براری“کے بہ جائے ”حد برداری“، ”فضا گٹ“ کے بہ جائے ”فضا گت“،”منیڈھوں“ کے بہ جائے ”مینڈھول“، ”شرعی مسائل“ کے بہ جائے ”شرعی ئل مسا“،”تحصیل وار“ کے بہ جائے ”تحصیلدار“، ”رعایتی“ کے بہ جائے ”رعیاتی“، ”مزروعہ“ کے بہ جائے ”مزروغہ“، ”محکمہ قضا“ کے بہ جائے ”محکمہ فضا“، ”سعادت“ کے بہ جائے ”سعات د“،
”پختنوں“ کے بہ جائے ”پحتنوں“، ”دعویٰ“ کے بہ جائے ”ی دعٰو“ اور”تصفیے“ کے بہ جائے ”نصفے“۔
چوں کہ ”رواج نامہ سوات“ کی حیثیت قانون کی ایک کتاب جیسی ہے اور قوانین میں زبان وبیاں اور الفاظ کا معمولی تغیر و تبدل حتیٰ کہ رموزِ اوقاف وغیرہ کا استعمال معانی و مفاہیم اور عام طور پر معمولی گردانے جانے والے یہ نِکات، اہم مقدمات کے فیصلوں یا کسی معاملے کے ضمن میں رائے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ”رواج نامہ سوات“ اور اس جیسی دوسری کتابوں میں ترجمہ، زبان و بیاں، جملوں کی ساخت اور رموزِ اوقاف وغیرہ کی غلطیاں کسی صورت قابل قبول نہیں ہوتیں۔
اگر ”رواج نامہ سوات“کے 2021 ء میں شائع کردہ مذکورہ بالا دونوں نسخوں کے پبلشرز یا اشاعت کنندہ گان اس کے سابقہ اصل نسخے کے ترجمے میں خامیوں اور زبان و بیاں کی غلطیوں کو حقیقی معنوں میں دور کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور اِس کا شائع کرنا ضروری تھا، تو اس صورت میں اِنھیں اِس کو اپنی اصل صورت میں، جیسا بھی وہ تھا یعنی ٹھیک تھا یا غلط، شائع کرنا چاہیے تھا۔ اس صورت میں اس کہاوت کہ”الا بلا بہ گردنِ ملا“کے مصداق تمام خامیوں کی ذمے داری اور خوبیوں کا سہرا غلام حبیب ہی کے سر رہتا اور یہ دونوں پبلشرز یا اشاعت کنندہ گان کسی بھی خامی اور غلطیوں کی ذمے داری سے ایک حد تک بری الذمہ ہوتے۔
ڈپٹی کمشنرسوات جنید خان صاحب کو سرکاری رقوم کو غیر معیاری کتابوں کی طباعت و اشاعت پر صرف کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چوں کہ یہ فنڈز اور رقوم، قوم کی دولت اور امانت ہیں، لہٰذاجنید خان صاحب کو ان کے استعمال میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کے لیے کسی نہ کسی مرحلے پر اُسے ہی جواب دہ ہونا ہے۔ اُسے اِن رقوم کو غیر معیاری کتابوں اور غیر معیاری تراجم کی اشاعت پر صرف کرنے کے بجائے معیاری کتابوں کی اشاعت اور غیر معیاری تراجم کو اصل ماخذوں اور مسودوں کے ساتھ پرکھ کر اُن کو معیاری بنانے اوراُس کے بعد اُن کے شائع کرنے پر صرف کیا جانا چاہیے۔ جو غیر معیاری کتب وغیرہ جنید خان صاحب شائع کرکے اپنے پیچھے چھوڑیں گے،وہ تاریخ میں اُس کی نیک نامی نہیں بلکہ بدنامی کا ذریعہ بنیں گے۔ اِس لیے کہ جلد یا بہ دیر لیکن تاریخ کسی کو کسی بھی حوالے سے معاف نہیں کرتی۔
ان کتابوں کی اشاعت میں کاپی رائٹ کے قوانین کی پاس داری کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ (مرحوم) پروفیسر سیف اللہ خان صاحب نے والی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری”دی لاسٹ والی آف سوات“ کے برطانیہ سے شائع شدہ ایڈیشن کا اُردو میں ترجمہ کیا تھا۔ چوں کہ سیف اللہ خان صاحب کی سروس کا زیادہ تردورانیہ پشاور میں ہائر ایجوکیشن کے ڈائریکٹوریٹ، فرنٹئیر ایجوکیشن فاؤ نڈیشن اور سیکرٹر یٹ میں گزرا تھا، لہٰذا اُسے ان باتوں کا خوب ادراک تھا۔ علاوہ ازیں وہ ایک با اُصول فرد بھی تھا۔ اس وجہ سے تمام اخلاقی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر اُس نے اُ س پبلشر کو خط لکھ کر اُس ترجمے کے شائع کرنے کی اجازت طلب کی تھی، لیکن وہاں سے اُسے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ اس بات کا مجھ سے تذکرہ کرنے پر مَیں نے اُسے بنکاک والے ایڈیشن کے پبلشر کا پتا دیا کہ اس پر رابطہ کرو، شاید یہاں سے کوئی جواب مل جائے۔ چوں کہ وہاں سے بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا، تو کاپی رائٹ کے قانون کی پاس داری کرتے ہوئے پروفیسر سیف اللہ خان صاحب نے اپنا وہ اُردو ترجمہ شائع نہیں کیا۔