فضل محمود روخان
جنگِ امبیلہ بونیر میں آخوند صاحب سوات کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ اس وجہ سے اگر ان کے بارے میں کچھ عرض کروں، تو بے جا نہ ہوگا۔ موصوف تصوف کی دنیا میں بھی جانی پہچانی شخصیت کے مالک ہیں۔
آخوند صاحب کا نامِ گرامی عبدالغفور تھا۔ بر سوات کے ایک گاؤں جبڑئ میں 1794ء کے آس پاس پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق صافی مہمند سے بتایا جاتا ہے۔ ان کی اپنی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، اگر چہ وہ ایک غریب گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔بچپن ہی سے ذکر وفکر اور زہد و عبادت کی طرف مائل تھے۔ 18سال کی عمر میں گھر سے دینی علوم حاصل کرنے کے لیے نکلے۔ کچھ عرصہ گوجر گھڑئ میں رہے۔ تور ڈھیری صوابی کے صاحب زادہ محمدشعیب سے بیعت کی۔ ہنڈ کے قریب دریائے سندھ کے کنارے بیکی گاؤں میں بارہ سال عبادت اور ریاضت میں گزارے۔ سیداحمد شہید بریلوی کے بعض اہم مشوروں میں بھی شریک رہے۔ ہنڈ کے خان خادی خان کو آخوند صاحب سے بڑی عقیدت تھی۔ خادی خان کے سید احمد شہید بریلوی سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ آخوند صاحب سوات نے اس وجہ سے ایک رازکی بات خادی خان کو بتا دی،جو بعد میں سکھوں کے علم میں آئی، جس سے سکھوں نے جنگ میں خوب فائدہ اٹھایا۔ آخوند صاحب کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا اور ان کو اتنی ندامت محسوس ہوئی کہ بیکی سے نکل کر ایک عرصے تک روپوش رہے۔ غالباً سید صاحب کی شہادت کے بعد ہی ظاہر ہوئے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سلیم خان میں رہے۔ 1835ء میں امیر دوست محمد خان نے پشاور کو سکھوں سے آزاد کرنے کے لیے جنگ کا فیصلہ کیا، تو آخوند صاحب سوات سے جنگ میں شرکت کی استدعا کی۔ چناں چہ آپ ایک بڑی جماعت کے ساتھ امیر کے پاس پہنچے اور جنگ میں شریک ہوئے…… لیکن افسوس کہ امیر اس جنگ میں شکست سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد آخوند صاحب سوات چلے گئے اور سیدو میں رہنے لگے۔ جہاں ان کے گزارے کے لیے عقیدت مندوں نے اپنی زمینیں ان کی نذر کیں۔ نیک پی خیل میں انھوں نے شادی کی، جس کے نتیجے میں ان کے دو بچے پیدا ہوئے۔ 1877ء میں وفات پائی۔
آخوند صاحب کی وجہ سے سیدو کو خاص مقام حاصل ہوا۔ آج کل سیدو شریف، ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام ہے۔ ریاستِ سوات کے دور میں یہ سوات کا پایے تخت رہا ہے۔
آخوند صاحب سوات کے پوتے میاں گل عبد الودود نے جدید ریاستِ سوات کی بنیاد رکھی، خود حکومت کی اور بعد ازاں اپنے بیٹے میاں گل جہانزیب کو سوات کا حکم ران بنایا۔یہ سب آخوند صاحب سوات کا روحانی فیض تھا۔