سوات: افغانستان کے مختلف میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات نے حکومت سے مدد کی اپیل کی ہے کہ انہیں پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ دیا جائے۔افغانستان کے میڈیکل کالجوں میں 105 طالبات میں سے تقریباً 50 کا تعلق مالاکنڈ ڈویژن سے ہیں، جن میں سوات، بونیر، دیر اور دیگر علاقوں کی طالبات شامل ہیں۔
طالبات کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں لگنے کے بعد ہمیں اپنے گھروں کو واپس لوٹنا پڑا۔ہم نے تعلیم جاری رکھنے کے لئے پاکستانی اعلی حکام سے ملنے کی کوشش کی، لیکن کئی دفعہ کوششوں کے باوجود کسی نے بھی ہمارے طرف توجہ نہیں دی۔
مٹہ کے علاقے درشخیلہ کی رہائشی سلینہ بی بی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ افغانستان کے شہر جلال آباد میں سپن غر میڈیکل کالج کی طالبہ تھی اور میرا خواب تھا کہ میں کارڈیالوجسٹ بنو۔میں نے ڈاکٹر آف میڈیسن میں دوسرا سال مکمل کیا اور تیسرے سال میں داخل ہونے والی تھی، لیکن ہمیں امتحان میں شامل ہونے سے روک دیا گیا کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا
سلینہ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے داخلہ لے لیا تھا اور بعد میں طالبان حکومت نے بھی ہمیں تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دی لیکن اچانک افغانستان کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر نے یونیورسٹیوں میں خواتین پر پابندی لگا دی۔ جس کے بعد میں کافی ڈپریشن میں ہوتی ہو۔
بونیر کے علاقے جوار سے تعلق رکھنے والی ایک اور طالبہ نادرہ مشتاق کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے۔میں اورمیرے دوست ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں کیونکہ ان کے ڈاکٹر بننے کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ ہم حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمیں تعلیم جاری رکھنے میں مدد فراہم کریں تاکہ ہمارا قیمتی وقت ضائع نہ ہو اور ہمارا مستقبل محفوظ ہوانہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے حقوق کی تنظیمیں بھی نوٹس لے اور ان کے اس سنگین مسئلے کے بارے میں اورکالجوں میں اسکالرشپ حاصل کرنے میں ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں
طالبات نے کہا کہ تعلیم ان کا حق ہے لیکن انہیں زبردستی اس حق سے محروم کر کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ہم طالبان حکومت سے خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے کی بھی اپیل کرتے ہیں۔