ڈاکٹر ہمایون ہما

موضوع زیر بحث یہ تھا کہ میاں گل عبد الودود المعروف باچا صاحب کے حکم اور نگرانی میں پشتو کی جو کتابیں سوات میں شائع ہوئیں ان کے مصنفین کون تھے۔ ایک تو ہمارے محققین کی یہ عادت رہی ہے کہ ایک بار کسی کتاب یا اس کے مصنف کے بارے میں غلط کوائف عام ہو جائیں تو پھر دیگر محقق بھی ان پر کسی مزید تحقیق کی زحمت اٹھائے بغیر وہی غلط معلومات تواتر کے ساتھ آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ مثالیں کئی موجود ہیں اس پر کسی آئندہ تحریر میں بات ہوگی۔ باچا صاحب کی نگرانی میں جو کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں ایک کتاب تاریخ فرشتہ کا ترجمہ بھی تھا۔ لیکن اس کے مترجم کے بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آرہی تھی۔ مترجم کے نام کے ساتھ قاسمی کا لاحقہ چسپاں تھا۔ اس پر کچھ لوگوں نے اس کے ترجمے کو عبدالقدوس قاسمی کے ساتھ وابستہ کردیا۔ ہمیں شک پڑا۔ عبد القدوس قاسمی بلاشبہ بہت بڑے محقق اور عالم ہیں لیکن ہم نے کسی دوسری جگہ تاریخ فرشتہ کے مترجم کی حیثیت سے ان کا ذکر نہیں پڑھا تھا۔ یہ تو خدا بھلا کرے پروفیسر جلال الدین یوسف زئی کا۔ جب ہم نے اپنے دوست شہاب سوات کے کہنے پر ان سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے ڈاکٹر محمد علی دیناخیل کی تھیسس Develoement of Pashto Prose in Swat Theکے متعلقہ صفحے کی تصویر روانہ کردی جس میں بتایا گیا تھا کہ تاریخ فرشتہ، جو تاریخ ہندوستان کے نام سے دو جلدوں میں ترجمہ کی گئی ہے، کے مترجم سید عبد الغفور قاسسمی صاحب ہیں جو مردان کے ایک قصبے آلو قاسمی کے رہنے والے تھے۔ یہ کتاب 1942ء میں ترجمہ ہوئی۔ چھپائی میں اس کے بہترین کاغذ استعمال کیا گیا تھا اور کتاب مجلد تھی۔ اندر کے ابتدائی صفحات رنگین تھے۔ کتاب پر کوئی قیمت درج نہ تھی اور شائقین کو مفت دی جاتی تھی۔ کتاب کا ترجمہ یوسفزئی لہجے میں کیا گیا تھا اور انتساب اس کا باچا صاحب کے نام تھا۔ کتاب کے اندرونی پہلے صفحے پر تاج محمد خان زیب سر کا یہ قطعہ درج تھا۔
دی خپلی ژبے لوئی وکہ خدمت تا
دا پریوتے نشان بیا چی کہ اوچت تا
ستا نامہ بہ ہمیشہ پہ دی دنیا وی
پہ خپل قام چی وکہ ہمرہ عنایت تا
زیب سر کے اس قطعے کی وجہ سے بعض لوگوں نے کتاب کا ترجمہ ان سے بھی منسوب کیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ باچا صاحب نے جن دیگر کتابوں کو اپنی نگرانی میں شائع کیا ان میں تاریخ فرشتہ کے علاوہ فتویٰ ودودیہ میزان الصرف اور انوار سہیلی کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ اسی زمانے میں زیب سر نے عروج افغان کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ ذکر میں اپنی کتاب ’’سرحدی صوبہ کے دَ ادبی مجلو روایت‘‘ میں پوری صراحت کے ساتھ کرچکا ہوں کہ پشتو کا پہلا ماہنامہ اسلام کے نام سے حضرت عبد الغفور المعروف سیدو باباجی نے 1854ء میں جاری کیا تھا جو ریاست سوات کے بانی باچا صاحب کے داد تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس رسالے میں عیسائی مخالفین کی جانب سے اسلام مخالف پروپیگنڈے کے جواب میں تحریریں شائع ہوئی تھیں۔ بنیادی طور پر یہ پشتو کا پرچہ تھا۔ لیکن اس میں کچھ صفحات اردو اور فارسی کے لئے بھی مخصوص تھے۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس زمانے میں سوات کی دو دیگر ہمسایہ ریاستوں چترال اور دیر میں لکھت پڑھت کی زبان فارسی تھی۔ لیکن جیسے کہ ڈاکٹر سلطان روم نے اپنی کتاب ریاست سوات (1915 تا 1969) میں لکھا ہے، ریاست سوات کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے پشتو کو واحد سرکاری زبان قرار دیا۔ افغانستان میں بھی پشتو واحد سرکاری زبان نہ تھی۔ وہاں اس کے ساتھ ساتھ دری زبان کو بھی سرکاری حیثیت حاصل تھی۔ باچا صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پشتو کو سرکاری زبان قرار دیا اور اس کی تحریر کے لئے اردو رسم الخط کو اختیار کیا۔
پشتو سرکاری زبان قرار دینے کے بعد عدالتی، فوجی اور شہری محکموں کے رجسٹروں میں سب اندراجات پشتو زبان میں ہوتی تھیں۔ میاں گل عبد الودود پڑھ لکھ نہیں سکتے تھے لیکن والی سوات میاں گل جہاں زیب کو پشاور سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے پشتو زبان پڑھنے اور لکھنے پر بھی قدرت حاصل تھی۔ وقت بہ وقت وہ جو فرمان جاری کرتے تھے انہیں پشتو میں طبع کیا جاتا تھا اور اسے ان کے کاتب فضل الرحمان فیضان سوات خوش خط لکھ کر عام کرتے۔ سیدو شریف میں پہلا پرائمری سکول 1922ء کے قریب کھلا۔ ہمارے دوست شہاب سوات کے مطابق انہوں نے جب 1950میں ودودیہ پرائمری سکول میں داخلہ لیا تو وہاں سارا نصاب تعلیم پشتو میں تھا۔ سیدو شریف کے پرائمری سکول کے علاوہ بری کوٹ، چارباغ، چکیسر، ڈگر اور باچا کلے میں بھی پرائمری سکول کھولے گئے جس کا نصاب تعلیم بھی بالیقین پشتو میں ہوگا۔ اس وقت ریاست میں پرائمری سکولوں کی تعداد 12 تھی۔ باچا صاحب تعلیم پر سالانہ اٹھارہ ہزار روپے خرچ کرتے تھے جو اس زمانے میں ایک خطیر رقم تھی۔ اس مختصر کالم میں ریاست سوات میں پشتو کی ترقی و ترویج کا مکمل جائزہ پیش کرنا ممکن نہیں لیکن ریاست سوات میں پشتو زبان و ادب کی ترقی کے لئے وہاں کے حکمرانوں کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس دور میں جب کہ چاروں طرف انگریزی کا چرچا تھا ان کا پشتو کی طرف توجہ دینا بہت بڑا کارنامہ ہے۔