خدایہ پہ کلی کی جنگ جوڑ کے

چی د بے قدرہ زلمو قدر پیدا شینہ

بریگیڈیئر صدیق سالک شہید اپنی کتاب ’’سلیوٹ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ جب وہ پہلے دن اپنے سنٹر پہنچا، تو حوالدار نے کہا کہ فوج میں سات بجے کا مطلب سات بج کر پانچ منٹ نہیں ہوتا، بلکہ 6 بج کر 55 منٹ ہوتا ہے ۔

قارئین! وقت کی پابندی نہ کرنا ہمارا قومی المیہ ہے۔ ہم ہر کام وقت پر شروع کرنے کے عادی نہیں۔ دیر سے شروع کرنے میں ہمیں مزہ آتاہے اور بعض مہمان تو دیر سے آنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وقت کتنا قیمتی ہے۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف۔

’’سوات ادبی الوت پختون خوا‘‘ اور ’’شعور ادبی کاروان‘‘ کی جانب سے 27 نومبر 2022ء بروزِ اتوار پانچ کتابوں کی تقریبِ رونمائی ہوئی۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز محمد شیر اُستاد صاحب نے تلاوتِ قرآن پاک سے کی۔ جب کہ سٹیج سیکرٹری کے فرایض تنِ تنہا امجد علی سورجؔ نے ادا کیے۔ ایک ہی چہرہ بار بار دیکھنے سے بندہ اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے، لیکن یہ شاید اُن کی مجبوری تھی۔

سٹیج پرسب سے پہلے ارشد علی ارشدؔ آئے اور اپنی ایک خوب صورت، دل آویز اور دل کوچھولینی والی نظم جس کا موضوع احسان اللہ سمبٹی صاحب کی کتاب ’’اوخکے می بھیگی‘‘ تھا۔

اس تقریبِ رونمائی میں ہر ایک کتاب پر تاثرات اور نظمیں پیش کی گئیں۔ سمبٹی صاحب کی کتاب پر تاثرات پیش کرتے ہوئے مشہور و معروف کالم نگار، محقق، تاریخ دان اور لفظوں کے جادوگر ساجد علی خان ابوتلتاند صاحب جب سٹیج پر آئے، تو انھوں نے سب سے پہلے گاؤں سمبٹ کی تاریخی، سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی پس منظر بیان کرتے ہوئے سمبٹی صاحب کا اجمالی خاکہ پیش کیا اور حاضرینِ مجلس سے خوب داد سمیٹی۔ موصوف کے بعد شہزادہ برہان الدین حسرت صاحب سٹیج پر آئے اور ساتھ لائے ہوئے چلغوزے شرکا میں تقسیم کیے، لیکن یہ صرف آگے صف میں بیٹھے مہمانوں تک محدود رہے اور باقی صرف دیکھتے ہی رہ گئے۔ برہان صاحب نے نذر محمد نذرکی کتاب ’’نیمگڑی عکسونہ‘‘ پر پہلے نثر اور پھر شعر کی زبان میں بحث کی۔ انھوں نے نذر صاحب کی شاعری کو اعلا پائے کی قرار دیتے ہوئے داد دی۔

برہان صاحب کے بعد سٹیج پر ڈاکٹر واحد زمان زمانؔ صاحب آئے، تو اپنے دل کش، انوکھے اور میٹھے اندازِ بیاں سے میاں حسن حسنؔ صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ’’لٹون د وفا‘‘ پر بحث کی۔

ڈاکٹر صاحب کے بعد محترم حسین علی حسینؔ کی لکھی ہوئی کتاب ’’نغمی زما د قام‘‘ پر اپنے تاثرات پیش کرنے کے لیے ابراہیم دیولئی المعروف ’’لالاجی‘‘ سٹیج پر نمودار ہوئے اور حسین علی صاحب کی زندگی، ان کی سیاسی اور سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ پشتو زبان کے لیے ان کی خدمات پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ موصوف کی تینوں کتابیں خالص پختون قوم کے لیے لکھی گئی ہیں۔ کیوں کہ ان میں پختونوں کی زبوں حالی بیان کرنے کے ساتھ ان زخموں کا مداوا بھی کیا گیا ہے، جو پختون کو بحیثیت ایک قوم ہر میدان میں درپیش ہیں۔ دیولئی صاحب نے حسین علی خان کی کتاب سے ایک نظم بھی حاضرینِ محفل کی نذر کی۔

دیولئی صاحب کے بعد بریال یوسف زئی صاحب سٹیج پر آئے اور نذر محمد نذر کی کتاب ’’نیمگڑی عکسونہ‘‘ کو موضوع بنایا۔ کتاب کو ہر لحاظ سے بہترین قرار دیتے ہوئے نذر صاحب کو اپنا استاد بھی گردانا۔

پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ صاحب پانچوں کتب کو زیرِ بحث لائے…… لیکن عمر رسیدہ شاعر فضل محمد سواتی کی لکھی ہوئی کتاب ’’خوشبو‘‘ کو خاص داد سے نوازا۔ انھوں نے ’’سوات ادبی الوت پختون خوا‘‘ اور ’’شعور ادبی کاروان‘‘ کو بیک وقت پانچ کتابوں کی تقریبِ رونمائی پر خوب داد دی۔

پروگرام میں وقتاً فوقتاً مختلف شعرا اور گایک بھی آتے گئے اور پروگرام کو چار چاند لگاتے گئے۔ ان میں حیدر علی حیدرؔ، محمد رحیم کوٹے، الیاس ثاقبؔ، ظاہر شاہ ظاہرؔ، اذلان یوسف زئی، فضل نعیم نعیمؔ، احسان اللہ شاہدؔ، مردان سے آئے لال باچا خیالیؔ اور فضل معبود دیارؔ نے اپنی سریلی آوازوں میں نظمیں ترنم کے ساتھ پیش کیں، لیکن بلبلِ سوات ظفر علی نازؔ صاحب نے اپنی دل فریب شاعری اور جداگانہ انداز سے محفل پر سحر طاری کر دیا۔

پروگرام کے مہمانِ خصوصی پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیماب صاحب اور صدرِ محفل عبدالغفور (غفور بابا)تھے، جنھوں نے ایک خوب صورت پروگرام کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پختون قوم کی ادب سے دوری پر بحث کرتے ہوئے اس قسم کے پروگراموں کے ذریعے ادب کو فروغ دینے کا عندیہ دیا۔ پروگرام میں ’’رونڑ سحر ادبی ٹولنہ‘‘ کی طرف سے مصنفین کو ایوارڈز بھی دیے گئے۔ پروگرام کی میڈیا کوریج حمید الرحمان ہمدردؔ اور عادل شاہ صاحب نے کی۔

آخر میں ڈاکٹر سعیداللہ خادمؔ صاحب نے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کابلی پلاو سے مہمانوں کی تواضع کی گئی۔ اب حیدر علی حیدرؔ کے ان اشعار پر اجازت چاہوں گا کہ:

زوڑ ملا دے ــــــــــــ او زڑی یی تروای دی

کوم کافــر وائی چی نـوے کال بہ خہ وی

زئی توکل دے مڑہ یو بل خو معاف کــڑئی

مونگ عـــوام ســـرہ د دی نہ سیوا سہ وی