سوات: ماہرین آثار قدیمہ نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے سوات کی تحصیل بریکوٹ کے علاقے بازیرہ میں پاکستان کا سب سے قدیم بدھ مت کا مندر دریافت کرلیا۔پاکستان میں اطالوی آثار قدیمہ کے مشن نے خیبر پختونخوا محکمہ آثار قدیمہ کے تعاون سے یہ 23 سو سال مندر دریافت کیا ہے۔
پاکستان میں اطالوی سفیر آندریاس فیرریز نےمیڈیاکو بتایا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ نئی دریافت اطالوی ماہرین آثار قدیمہ نےکی ہے۔پاکستان اور اٹلی کے آثار قدیمہ کے درمیان معاہدہ میں ایک ساتھ اثارتلاش کرنا بہت دلچسپ ہے۔ ان کو کہنا تھا کہ یہ وہ چیز ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ قدیم زمانے میں بھی ہمارے ہاں ایک طرح کی عالمگیریت تھی جہاں لوگوں کے درمیان ثقافت اور مذاہب کی مخصوص تکنیکوں اور نظریات کا تبادلہ ہوتا تھا جو کہ حیران کن بات ہے۔
تفصیلات کے مطابق سوات کی تحصیل بریکوٹ میں تین ہزار سال پرانے بدھ مت دور کے شہر ”بازیرہ“ میں 23 سو سال پرانا بدھ مت کا “Apsidal” مندر دریافت ہوا ہے جو پاکستان کا سب سے پرانا بدھ مت دور کا مندر ہے۔ سوات کا یہ مندر اس سے پہلے ٹیکسلا میں ملنے والے بدھ مت کے اس قسم کے مندر سے بھی پرانا ہے۔ خیبر پختون خوا کے محکمہ آرکیالوجی اور اٹلی حکومت کی پاکستان میں آرکیالوجی مشن کی مشترکہ کھدائی کے دوران یہ مندر اور 2700 سے زائد اُس دور کے نوادرات ملے ہیں۔

پاکستان میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے سربراہ ڈا کٹر لوکا ماریہ اولیوری نے میڈیا کو بتایا کہ یہ انتہائی اہمیت کا حامل مندر ہے۔ سوات اب ٹیکسلا سے بھی پرانا آثار قدیمہ رکھنے والا علاقہ بن گیا ہے۔ بازیرہ شہر میں کھدائی کے دوران مزید آثار ملنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کھدائی کے دوران ہند یونانی دور کے بادشاہ منندر دور کے سکے، یونانی دیوی کے مجسمے کی انگوٹھی اور خاص کر یونانی دور کے برتن اور خروشتی زبان کی لکھائی اور دیگر اہم سامان بھی ملا ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں تعینات اٹلی کے سفیر آندر یاس فزاریزے نے کہا ہے کہ پاکستان آثارِقدیمہ اور مختلف مذاہب کے لئے انتہائی اہم ملک ہے۔ اٹالین آرکیالوجیکل مشن گذشتہ 70 سال سے سوات میں حکومتِ پاکستان کی آرکیالوجی محکمے کے ساتھ مل کر آثارِ قدیمہ کی حفاظت اور کھدائی کا کام کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آثارِ قدیمہ صرف یونیورسٹی کی حد تک محدود نہیں بلکہ یہ روزمرہ کی زندگی کو بھی چھو کر گزرتی ہے۔ کیونکہ ہماری پچھلی تاریخ ہی ہمیں وہ بناتی ہے جو آج ہم ہیں اور یہ بہت خوش آئند با ت ہے کہ اٹلی اور پاکستان کے آثارِ قدیمہ میں بہت مشا بہت پائی جاتی ہے۔ یہ با ت بہت غو ر فرما ہے کہ پرانے زمانے میں بھی اس طرح کی عالمگیریت موجود تھی، جس میں لوگ تکنیک،مذہب،نظریات اور ثقافت کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ یکساں رکھتے تھے۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ جتنا ہم تاریخ میں یکسانیت رکھتے ہیں، اتنا ہی اپنا مستقبل ایک ساتھ نظر آتا ہے۔
ڈائریکٹر میوزیم اینڈ آرکیالوجی خیبر پختون خوا ڈاکٹر عبدالصمدنےمیڈیا کو بتایا کے بازیرہ شہر اب ٹیکسلا سے بھی پرانا ہے۔ اٹلی کی ٹاپ یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی طلبہ اور محکمہ آرکیالوجی خیبر پختون خوا ہر سال ان سائٹس میں کھدائی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نئے نوادرات سے ثابت ہوتا ہے کہ سوات چھ سے سات مذاہب کے لئے انتہائی مقدس جگہ ہے۔ خیبر پختون خوا حکومت نے سوات آثارِ قدیمہ کے14 سائٹ سیکشن فور کے ذریعے خریدے ہیں جن میں کھدائی کا کام جاری ہے۔اگر پرانے وقتوں میں اس شہر کو محفوظ کیا جاتا، تو حالیہ کھدائی کے دوران اس میں بہت پرانے اور اہم نوادرات ملنے کی توقع تھی لیکن آثارِ قدیمہ کے چوروں نے یہاں کا صفایا کردیا ہے۔بازیرہ شہر میں حالیہ کھدائی میں ملنے والے سیکڑوں نوادرات کو سوات عجائب گھر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے سربراہ ڈا کٹر لوکا ماریا اولیوری نے میڈیا کو بتایا کہ حالیہ کھدائی کے دوران ملنے والے23 سو سال پرانے27 سو نودرات کو سوات عجائب خانہ کے حوالے کردیا گیا ہے، جو اَب اس اہم عجائب گھر کی زینت بنیں گے۔