فضل مولا زاہد
بسم اللہ جی! کئی اپنے پرائے پیروکاروں اور ہم نواؤں کا کچا چٹھا کھول کر کلیجہ ٹھنڈا کرنے کو دِل کرتاہے، جن میں دیسی بھی ہیں اور بدیسی بھی۔ سب اپنی اپنی خیر منائیں!بات نکلے گی، تو پھر دور تلک جائے گیشروعات ایسے خوش بخت بندہ بشر سے کرتے ہیں جس سے آج کل شدید قسم کی ناراضی بھی ہے۔ ناراضی تو عام سا لفظ ہے، غیر پارلیمانی قسم کی دشمنی سمجھیں۔ ایسی دشمنی کہ آپ سے کیا پردہ! معمولی گڑبڑ ہوئی، تو ہماری جانب سے بھاری اسلحہ کے استعمال کا بھی احتمال ہے۔ تاہم فی الحال لفظی گولہ باری پر قناعت ہے کہٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلائیں کیسےحال جیسا بھی ہے لوگوں کو سنائیں کیسےبندہ بشر کے جدِ امجد کا تعلق وادیِ سوات کے ’’دیار خیز‘‘ خطہ کوہستان کے سید خاندان سے ہے۔ محکمۂ بلدیات کے غیر مصدقہ ریکارڈ کے مطابق اُتروڑ جیسی کارِزار بستی میں 9 فروری 1975ء کو بروزِ اتوار مبارک قدم رنجہ فرمانے والے یہی واحد چار پایہ آدم زادتھے جنہوں نے اَکھیوں کے جھروکے وا کرتے ہی چاروں طرف برف کے تودے دیکھے، توچیخ چیخ کر اپنی پیدائش پر نقد احتجاج ریکارڈ کرا کے دم لیا، تاکہ سند رہے۔کرۂ ارض میں آپ کی ولادت اپنے ہم زاد شوکت علی شرار المعروف گل دادا آف گل بانڈٔی کی چشم کشائی اور بیک وقت چیچک کی وبا پھوٹنے کے چارسال بعد اورسلام پور کے حاضر گل خان لالا کے ’’دودھ داڑھ‘‘ منکشف ہونے کے کوئی پانچ برس قبل کے قرب وجوارمیں ہوئی۔ قرب و جوار کے لوگ بتاتے ہیں کہ اس کی شکل و صورت میں پیدائشی طور پر ’’پروفیسر پن‘‘ کی چاشنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس لیے بچپنے ہی سے کوہستان وطن کے طول و عرض میں ’’ننھے پروفیسر‘‘ کے نام سے جانے پہچانے گئے۔ اگرچہ اُن دنوں میں یہ ’’جامۂ نورانی‘‘ میں ملبوس ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی میں عقل کا ایک ہی کام کیا، اور وہ یہ کہ علم کی پیاس بجھانے کے بہانے اوائلِ عمری ہی میں اپنی ’’برف بھومی‘‘ سے راہِ فرار حاصل کرتے ہوئے مینگورہ شہر کی طرف پیش قدمی کی۔ مینگورہ میں قیام کے دوران جامِ شرین کی طرح میٹھے دوستوں کی صحبت میں پلے بڑھے اوراِسی کشورکو اپنا کاشانہ بنا کے دم لیا۔ ازاں بعدانہوں نے عقل داڑھ کو لگام دے کرکبھی کھانے پہ مامور کیے رکھا، کبھی دکھانے تک محدودکیے رکھا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہاتھی جیسی قد و قامت رکھنے والے غیر سماجی جانور سے کس قدر متاثر رہے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس عمر میں عقل کی بجائے فاتر العقل ہونا زیادہ سود مند مشغلہ ہے۔ہم اُن کے بچپن اور لڑکپن بارے زیادہ نہیں جانتے، البتہ پروفیسر پن کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ تاریخ و مطالعہ پاکستان سے آپ کا شغف اوڑھنی ہی میں پروان چڑھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ’’العساکر والمبتدا‘‘ جیسے عالمی دیوانوں سے تاریخ کا ڈیٹا کشید کرکے اپنے حافظہ کے ہارڈ ڈسک میں کسی قطع و برید کے بغیرمنتقل کیا۔ ریشمی رومال اور اودھیانے کے پنگے سے لے کر، انڈس ریور سیولائزیشن، گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے سٹوپے تک، اور فقیر ایپی کے مرنے سے لے کرعمران خان کے دھرنے تک، جیسے معاملات وواقعات اُس کے تحت الشعور کے کلاؤڈ سٹوریج میں مدفون ہیں۔اِس ناہنجار کی ایک بات ہمارے دماغ کی کسوٹی میں بُری طرح کھٹکتی ہے کہ پیدا ہوئے کوہستان کے پہاڑی سلسلوں میں،علم کشید کیا علم و فضل کی نگری سیدوشریف میں،لیکن پروفیسر بنے تو قلم کی قندیل سے ہزارہ ڈویژن کو منور کرنے کی ٹھانی، جب کہ اپنے وطن کے مکین پیاسے کوے کی طرح علم کی گٹھڑی کو گھڑے سے نکالنے کے لیے کنکریاں ڈھونڈنے میں مگن رہیں۔ پورے 25 برس تاریخ کے اوراق نچوڑ نچوڑ کر دماغ کی ہٹی بھرنے والا وہ لڑاکو لڑکا گذشتہ بیس سال سے پروفیسر بنے نئی پود کے دماغ میں پاکستانی تاریخ کا ملبہ ڈالنے کی سرتوڑ کوشش فرما رہے ہیں اور اس سودے بازی کے بدلے اپنا دانہ بھی کماتے ہیں اور پانی بھی۔ تادمِ تحریر اِس بندے نے اپنی عمر کے 46 سال 4 ماہ اور 19 دن تین ذمہ داریاں نبھانے میں گنوا دیے۔ تاریخ سیکھتے اور سکھاتے ہوئے، دنبے خود کھاتے اور دوستوں کو دریائے خیالی میں دنبہ پلاؤکھلاتے ہوئے اور سگریٹ کے طویل کش پھونکتے پھانکتے ہوئے۔’’کوششِ بیسیار‘‘ کے بعد بھی اس پروفیسر کے سراپے کے خدوخال ہمارے قلمی کیلکولیشن کی گرفت میں نہیں آتے۔ شکل شریف کا ظاہری نظارہ ہو، تو تھوڑے سے موٹے اور کچھ میانے لگتے ہیں۔ فیس ویلیو کے فی البدیہہ مشاہدہ کے لیے ہم نے فیس بک پیج کو کھنگالتے ہوئے ان کی تصاویر کا جائزہ لیا، تو جو تشریحات و تصریحات برآمدہوئیں، اُن میں سے کچھ یوں ہیں کہ دیکھنے میں پروفیسرصاحب کی ناک کا حلیہ بڑا حسین و متوازن ہے، جو ’’حسنِ زن‘‘ کومائل کرنے کے لیے فوٹو شاپ کی بناوٹی چال ہے، حقیقتاً ایسا نہیں۔ یہ اُفقی اونچی ہوتی جاتی ہے اورعمودی چھوٹی۔ کائنات میں ایسی ناک شاذ و نادر پائی جاتی ہے۔ ’’خندہ پیشاں‘‘ کا یہ عالم ہے کہ پیشانی کا حدودِاربعہ آبروؤں کے محراب سے لے کر گردن کی ڈیورنڈ لائن تک شتر بے مہار کی طرح ایسا پھیلا ہوا ہے، جیسے دریائے سوات۔ چہرہ عالیہ مربع نما لُک دیتا ہے جس میں آنکھوں کے عین اوپر آبروؤں کا مستطیلانہ پھیلاؤ، پورے فرنٹ وِیو پر چھایا دکھائی دیتا ہے۔ تصویر میں آنکھوں پر فوکس کرلیں، تو حضرت کا بایاں چشم مبارک مارے رعونت یعنی خودپرستی کے بھینگے پن کا شکار لگتی ہے۔ دونوں دیدے اپنے پپوٹوں اور آبروؤں کے خول میں عریاں بھی ہیں اور متحرک بھی۔ گویا کسی سے مناظرہ ہو رہا ہو۔ دل پھینک خواتین کا ان دیدوں کی طرف دیکھنا نہیں بنتا، ورنہ ’’افٹر اِفیکٹ‘‘ کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ آپ کی مونچھوں کی خرافات کی تشریح مشکل ہے۔ ڈیزائن سے لگتا ہے کہ وہ بذاتِ خود مونچھ رکھنے کے پسِ پردہ قراردادِ مقاصد پر مکمل یقین رکھتے ہیں، جن میں اولین مقصد دنیائے حسن وعشق پر اپنے سراپے کی دھاک بٹھانا اور ہم جیسے بے زبان سیویلینز پر رعب و دبدبہ کی کیفیت طاری کرنا ہوتا ہے، لیکن ٹھہریں……! آپ کی مونچھوں سے دین داری کی شرعی کیفیت جھلکتی ہے، جو ریاضی والے منفی نشان کی طرح شرقین و غربین میں پھیلی ہیں، جس میں تاؤ کا تصور دور دور تک مفقود ہے۔ تصویر خود بولتی ہے کہ ضعیفی کا بے وقت سایہ بالوں پر پڑا ایک عرصہ بیت گیا ہے،جس کی وجہ سے پیشانی اور بالوں سے کھنگال کھوپڑے میں فرق کا خاتمہ بالخیر ہوا ہے۔ البتہ کچھ نہ کچھ بال کانوں کے آس پاس کھوپڑے کے ساتھ خطِ تنسیخ کھینچتے ہیں، گویادولتِ حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہےمجموعی طور پررنگت میں سانولے پن کا ریشو زیادہ اور گندمی تڑکا کم ہے۔ شکل کو کبھی رونے والا بنا دینا اور رولا ڈالنا اور کبھی ہنس مکھ بنانا اور بھنگڑا ڈالنا تو آپ کی خدادادصلاحیتوں کا اچھوتاانداز ہے، ماشاء اللہ!اس بابت ظفر اقبال کے ان اشعار کے ہر بند سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:سہما سہما ہے سجاوٹ میں ترا سانولا پنسرخی ِ لب ہے کہ ہے شعلۂ شب گیر کوئیپڑھنے بیٹھوں تو اُبھر آئے گی ہر صفحے پربات کرتی ہوئی ، ہنستی ہوئی تصویر کوئیکبھی روشن جمالی کا درشن کرانے کو دل کریں، تو ایسے کراتے ہیں جیسے روحانی تشفی بانٹتے ہوں، غلط فہم کہیں کے۔ اُن کی رنگت کا جلن دیکھ کر کچھ لمحوں کے لیے اپنی فکر کے تانے بانے ستی دیوی کے خیالی محبوب تک پہنچ جاتے ہیں۔ کہیں یہ بندہ دیوی جی کے سابقہ عاشق کا کوئی دوسرا جنم تو نہیں۔موصوف کی کئی صفات لکھنے سے زیادہ اس کی دیدارسے پتا چلتی ہیں۔ جب کہ کئی صفات ڈاکٹریٹ لیول طویل تحقیق کے متقاضی ہیں۔ بچپنے کی طرح اب بھی اس کی شخصیت کا ظاہری سراپا، سرتاپا پروفیسری کا مرہونِ منت ہے ۔ یہ شان اُس کی پستہ قد شخصیت کے ساتھ بڑی بھلی لگتی ہے۔ ورنہ ایسی قد کاٹ والے تو بندوق کا زیور کندھے پر سجا ئے تاریک راہوں میں گھومتے پھرتے اور مسافری کرتے بھلے چنگے لگتے ہیں۔ پروفیسری کے اِس انداز پرکسی کا یہ فرمان دماغ کے لاشعور سے تحت الشعور میں دکھڑا بجا تا ہے کہ ’’یہ پروفیسر ہونا، کسی پیشے کا نہیں، کیفیت کا نام ہے۔‘‘ ہمیں جب بھی ملتے ہیں، تو اسی دبدبے میں ملتے ہیں۔ محتاط رہیے کہ پہلی ملاقات میں حضرت کامتبرک سراپاکسی بھی انسان پر اتنا وجد طاری کرسکتا ہے جتنا عرصہ 60 سال سے کالے اور سفلی علم کے بے تاج بادشاہ عامل نجومی کامل بنگالی بابا کا چیختا چنگھاڑتا کالا جادو، کسی غیر شادی شدہ یا اولادِ نرینہ کی امید لیے ہوئے خاتونِ خانہ پُر کرتا ہے۔ اُن کے خاندان کے چھوٹے بڑے دوست اور شاگرد، چاروں طبقہ ہائے فکر کا بیک وقت ماننا ہے کہ پیدائش ہی سے مطالعۂ پاکستان کا عارضہ لاحق نہ ہوا ہوتا، تو آج وہ کالے علم کے کاٹ اور پلٹ کے عالمی سطح کے ماہر ہوتے۔ آپ ہمارے جیسے واجبی مسلمان نہیں۔ سید لوگ تو ویسے ہی بزرگ ہوتے ہیں۔صوم وصلوٰۃ کے پابند (جمعہ شریف ضرورپڑھتے ہیں)، اوردل ہر وقت مساجد میں لگا رہتا ہے۔ اُن کو جب بھی دیکھا، مساجد کے دَروُن کا تاریخی جائزہ لیتے دیکھا۔ ان کو قدیم ثابت کروانے کی کوششوں میں سرگرداں دیکھا اور پھر گوروں کو شاگردوں کی طرح بحالی کے کام میں صراط ِمستقیم پر چلاتادیکھا۔ ہُنر ہو تو ایسا ہو، ورنہ نہ ہو۔آپ کو سفرِ آخرت کا غم اتنا نہیں کھائے جا رہا ہے جتنا مساجد کے ثقافتی ورثے کی بحالی و تحفظ کی فکرکھائے جا رہی ہے۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ہری پور ہزارہ کے شعبۂ تاریخ کے پروفیسر سیدمحمد روشن کہیں کے! سُن لیں، جنگ کی یہ جلتی چنگاریاں بجھانا، فوری اونٹ کی قربانی مانگتی ہے۔دوستی بھی کبھی رہی ہوگیدشمنی بے سبب نہیں ہوتی