فضل ربی راہی
2011ء میں ضلع کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل میں کوئلہ کی کان میں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 34 مزدوروں کو اِغوا کرلیا گیا۔ ان میں سے 18 کان کنوں کو تو کئی ماہ کے بعد اِغواکاروں کے چنگل سے بازیاب کرالیا گیا لیکن 16لاپتا ہوگئے۔ انھیں تلاش کرنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن انھیں بازیاب کرانے کی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ گذشتہ دنوں انھیں دس سال کے بعد زمین کے سینے سے ہڈیوں پر مشتمل ناقابلِ شناخت لاشوں کی صورت میں برآمد کیا گیا۔ ان کی شناخت ان کے لباس اور جوتوں سے ممکن ہوئی۔ اہلِ علاقہ کے معمولی احتجاج کے بعد انھیں اگلے روز اپنے اپنے علاقوں میں سپردِ خاک کیا گیا۔ گویا بہ قولِ فیض احمد فیضؔ:
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاکِ نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ افغانستان اور پاکستان کے پختونوں کے خون سے لڑی گئی۔ اس میں فتح امریکہ کو نصیب ہوئی اور بوریوں میں آنے والے ڈالروں اور مختلف اسلحے کے انبار کی صورت میں فائدہ پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ نے حاصل کیا لیکن چار عشروں کے گزرنے کے باوجود اس جنگِ زرگری کے مہلک اثرات بارڈر کے آر پار پختون ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ اس بھڑکتی ہوئی آگ کی تپش وطنِ عزیز کے دوسرے شہروں اور علاقوں تک بھی پہنچ گئی لیکن اس کا اصل ہدف پختون بیلٹ اور پختون عوام ہی رہے۔ تزویراتی گہرائی کی آڑ میں وزیرستان اور خیبر پختون خوا کے دوسرے علاقوں میں شدت پسندوں کو پالا پوسا گیا اور ان کے ذریعے پراکسی جنگوں کا بازار گرم رکھا گیا۔ قدرتی حسن و جمال سے مالا مال سوات جیسے تاریخی اور پُرامن علاقے میں بھی مذہبی شدت پسندی کی یہ آگ بھڑکائی گئی اور وہاں ہزاروں بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلایا گیا۔ اہلِ سوات کو بے گھر کیا گیا، ان کی اِملاک کو تباہ کردیا گیا اور وہاں پہ چادر اور چاردیواری کا تقدس بری طرح پامال کیا گیا۔ یہی سلوک بلکہ اس سے بد تر سلوک وزیرستان کے قبائلی علاقوں میں روا رکھا گیا۔ اہلِ سوات کو تو پھر بھی اپنے علاقے میں کسی حد تک چَین و سکون میسر آچکا ہے لیکن وزیرستان اور وہاں کے باسی ابھی تک در بہ در خانماں برباد ہیں۔ ان علاقوں میں اب بھی ریاست کی چھتری تلے شدت پسند آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ وہ جس کو چاہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائیں اور جسے چاہیں اِغوا کریں۔
جانی خیل کے چار کم سن لڑکوں کے بہیمانہ قتل کا واقعہ، اس سے قبل ان چار خواتین کی بے رحمانہ ہلاکت جو ایک غیرسرکاری تنظیم کے لیے کام کر رہی تھیں اور مقامی خواتین کو مختلف ہنر سکھاتی تھیں اور اس طرح شمالی وزیرستان میں بھی حال ہی میں ایک لاپتا شخص کی لاش 14 برس کے بعد اتفاقاً برآمد ہوئی۔ یوں کتنے گم شدہ افراد کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو ٹھکانے لگایا گیا ہوگا اور ان کے پیارے امید و بیم کی سولی پر لٹک رہے ہوں گے۔ ابھی گذشتہ دنوں شانگلہ کے 16 لاپتا کان کنوں کی لاشوں کی برآمدگی عالمی سطح پر ملک و قوم کے لیے مزید شرمندگی کا باعث بن گئی ہے۔
شانگلہ کے یہ کان کن اس علاقے میں کام کر رہے تھے جہاں شدت پسندوں کی موجودگی اور دہشت گردی کی وجہ سے فوج تعینات ہے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم ہیں اور دس سال قبل تو پورا علاقہ فوج کے مکمل کنٹرول میں تھا۔ کرفیو اور چیک پوسٹوں پر سخت تلاشی کے باوجود 34 مزدوروں کا اِغوا اور ان میں سے 16 کی گم شدگی ذہنوں میں سکیورٹی اداروں کے حوالے سے ناپسندیدہ سوالات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
اپنے لوگوں کو وسیع تر قومی مفاد کی آڑ میں پرائی اور پراکسی جنگوں کا ایندھن بنانے کے نتائج روز بہ روز شدید عوامی ردِ عمل کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں۔ بلوچستان میں جبری گم شدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے علاوہ مسلک کی بنیاد پر ہزارہ برادری کا قتلِ عام عوام میں غیرمعمولی غم و غصہ پیدا کرچکا ہے۔ اس طرح وزیرستان میں سیکورٹی اداروں کا پُرامن لوگوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک پی ٹی ایم کے قیام کا سبب بن چکا ہے جس کے جلسوں میں بلاشبہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہوتا ہے۔ ابھی گذشتہ دنوں وانا میں پی ٹی ایم کے جلسہئ عام میں کثیر تعداد میں عام لوگوں کی شرکت اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی اداروں کے کردار سے عام لوگ مطمئن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامِ امن کے دعوے داروں کو عزت و احترام کی بہ جائے مختلف قسم کے نا خوش گوار مخالفانہ نعروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی ایم کسی ایک شخص یا گروپ کی تحریک نہیں بلکہ اس کی صورت میں مظلوم عوام کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آگیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے ریاستی ظلم اور جبر کے خلاف احتجاج کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ستم رسیدہ عوام کی اس تحریک کو دشمن ممالک کی سازش سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے زبانِ خلق کو نقارہئ خدا کے مصداق سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بروقت مداوا کی صورت میں ریاست سے نفرت اور بے زاری کے جذبات کو سرد کرنے کی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے۔
شانگلہ ایک نہایت بدقسمت ضلع ہے۔ وہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شانگلہ کے رہنے والے یا تو بلوچستان، حیدر آباد اور درہ آدم خیل کی کوئلے کی کانوں میں حیات کُش مزدوری کر رہے ہیں اور یا کراچی اور یا سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں اپنے خاندان کے لیے روزی کمانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کی کوئلہ کی کانوں میں دب جانے والے مزدوروں کی درجن بھر لاشیں ہر سال اہلِ شانگلہ کی قسمت میں لکھی جا چکی ہیں اور اب ستم بالائے ستم یہ کہ 16 افراد دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ یہ 16 افراد نہیں بلکہ 16 خاندان ہیں جنھوں نے انتہائی کرب و اذیت کے ساتھ دس سال تک اپنے پیاروں کا اس امید پر انتظار کیا تھا کہ شاید وہ زندہ ہوں اور ایک دن زندہ سلامت اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔
شانگلہ کے 16 شہید ریاست کی کمزور ہوتی کمر پر ایک اور بوجھ کی صورت میں لد چکے ہیں۔ ریاست کے اصل حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی کمر پر لادے جانے والے اس بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوئی صورت نکالیں۔ ان 16 غم زدہ خاندانوں کی دل جوئی اور اشک شوئی کی ضرورت ہے اور ان کو شہدا پیکیج دے کر ان کے رنج ق غم کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
ریاست اپنے عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن ہماری ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ شانگلہ کے 16 شہید اپنی ریاست سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ ان کی روحیں اس وقت تک بے چین رہیں گی، جب تک ریاست انھیں انصاف نہیں دلاتی اور قاتلوں کو گرفتارکرکے انھیں قانون کے مطابق سزا نہیں دلواتی۔
اپنے تزویراتی مقاصد اور پراکسی جنگوں کے لیے مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے کی ریاستی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ پرانا دور کب کا لد چکا ہے لیکن ہمارے پالیسی ساز ابھی تک پرانے دور ہی میں رہ رہے ہیں۔ اُس وقت میڈیا ریاست کے کنٹرول میں تھا، لیکن اب میڈیا کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ اس لیے اب وسیع تر قومی مفاد کی آڑ میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہیں۔ حقائق کومزید چھپانا اب کسی کے اختیار میں نہیں رہا۔ طاقت ور ادارے سے نفرت اور بے زاری بڑھ رہی ہے، اس لیے وہ جس قدر جلد اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے اور اپنا کردار آئین اور قانون میں دیے گئے اختیار تک محدود کرے، اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ورنہ بعض اوقات معمولی سا واقعہ بھی بہت بڑے انقلاب کا باعث بن جاتا ہے۔