محمد شیر علی خان
دنیاکووجودمیں آئے اب تک کی سب سے بڑی ایجاد زبان ہی ہے جو رابطے کا بڑا ذریعہ اورمعاملاتِ زندگی کواحسن طریقے سے چلانے کی بڑی وجہ ہے۔
زبانوں میں مادری زبان کوبڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس میں لکھنا، پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ زمانہئ قدیم میں عموماً مادری زبان ہی ذریعہ تعلیم ہوتی تھی، تبھی توایک بندہ علوم و فنون میں مہارت رکھتا تھا اور ملک و قوم کی خدمت میں اپنا فعال کردار بھی ادا کرتا تھا۔
اب اگر ہماری مادری زبان پشتوکی بات کی جائے تو یہ علاقائی زبانوں میں پرانی اورترقی یافتہ زبان ہے۔ یہ صوبہ خیبرپختون خوا، بلوچستان، پنجاب کے ضلع میانوالی اور اٹک کے علاوہ کراچی کے بہت سے علاقوں میں بولی اورسمجھی جاتی ہے۔ اس پرفارسی کی گہری چھاپ ہے اوررسم الخط عربی طرز کا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا سلوک بڑا ظالمانہ ہے۔نسلِ نو پشتو زبان سے روز بروز ناآشنا ہوتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس کم فہمی پرایک طرح کافخربھی کرتی ہے۔ اس طرح پشتومیں ماسٹرکرنے والے کو وہ مقام اورمرتبہ حاصل نہیں ہوتا،جودوسری زبانوں کے ڈگری ہولڈروں کو حاصل ہوتا ہے۔
قارئین،بھلا ہو یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن (یو این او) کا جس نے مادری زبانوں کے لیے ایک دن مختص کیا ہے جس پر اورکچھ نہیں تو کم سے کم یاددہانی توہوجاتی ہے۔
21 فروری دراصل مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔ اس کو منانے کا مقصد صرف مادری زبانوں کو تحفظ دینا ہی ہے۔ اس دِن کو منانے کے لیے یونیسکو نے 17 نومبر 1999ء کواعلان کیاتھا اور بعد میں 2002ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کے تحت یہ کہا گیا کہ مادری زبانوں کاتحفظ اور تمام زبانوں کوبچانے کے لیے عوام الناس سامنے آئیں۔ یوں 16 مئی 2007ء کو اقوامِ متحدہ نے اس بابت ایک قرارداد پاس کی اور 21 فروری 2008ء کومادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ تب سے اب تک اس دِن کوبڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن مادری زبان کے حق میں جلسے جلوس، مشاعرے اور ادبی تقاریب کاخصوصی انعقاد کیا جاتا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے، لیکن اصل میں یہ دِن مناناکافی نہیں۔ ہمیں مزید کام کرنا ہوگا، جتنا کام ہو رہا ہے وہ تو اُونٹ کے منھ میں زیرے کے برابر والی بات ہے، سب سے پہلے ہمیں یہ زبان سکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر رائج کرنی چاہیے۔ اخبارات، رسائل اور سائن بورڈ وغیرہ پشتومیں لکھنے چاہئیں۔
قارئین، دیکھیں نا اس تحریر میں پشتو کی وکالت ہو رہی ہے اوروہ بھی اُردو زبان میں۔ اس سے بڑی زبوں حالی اور کیا ہوسکتی ہے، لیکن شکریہ ہے کہ اُردو کے ذریعے ہم اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار تو کر دیتے ہیں۔ اگر روزنامہ آزادی کی طرح ایک پلیٹ فارم پشتو زبان میں بھی مہیا کیا جائے، تو از چہ بہتر؟
اُردو بھی برصغیرکے مسلمانوں کا عظیم ثقافتی ورثہ ہے جس پرہم بجاطورپرفخرکرسکتے ہیں۔ عوام میں مقبول تو ہے ہی لیکن حکومتی سطح پر اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ قومی یکجہتی کی اس علامت کوقائداعظم نے 25 فروری 1948ء کوپاکستان کی قومی زبان قراردیاتھا، جسے قانون سازاسمبلی نے متفقہ طور پر منظور بھی کیا تھا۔ دستور1973ء میں اُردو کو قومی زبان قراردیتے ہوئے پندرہ سالوں میں ساری مملکت میں اسے دفتری سطح پر رائن کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ نے 8 ستمبر2015ء کودستورکے آرٹیکل 251 کے مطابق قومی زبان اُردو کو ریاست کے تمام شعبہ جات میں بطورِ دفتری، سرکاری اور تعلیمی زبان نافذ کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن تاحال اس پرعمل نہیں کیاگیاہے۔ دفتروں میں انگریزی کا بول بالا ہے۔ مقابلے کے امتحانات انگریری میں لیے جارہے ہیں، تاحال ہم انگریز کے ذہنی غلام ہیں۔
دوسری زبانوں میں مہارت حاصل کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنی زبانوں کو یکسر نظر انداز کرنا کہا ں کا انصاف ہے؟ بقولِ شاعر
بلہ ژبہ زدہ کول کہ لوئے کمال دے
خپلہ ژبہ ھیرول بے کمالی دہ
مادری زبان پشتو اور قومی زبان اردو کی زبوں حالی
