تحریر: ڈاکٹر سردار جمال
لوگ بھول جایا کرتے ہیں، وقت تبدیل ہو جاتا ہے، لفظوں کو نیا رنگ مل جاتا ہے۔ اب ہندوستان میں لفظ ”وادو” کا سادہ سا مطلب ہوتا ہے نئی شادی شدہ عورت لیکن رگ وید کے زمانوں میں ”وادو” کا مطلب ہوتا تھا ایسی عورت جس کو بازار سے تازہ تازہ خریدا گیا ہو
رگ وید میں عورت محض ایک فروخت کی جانے والی شے ہے۔ اس کو کسی بھی بازار میں کسی بھی نیلامی میں خریدا جا سکتا ہے حتی کہ نام نہاد غیب دانوں کی کئی بیویاں ہوا کرتی تھیں اور ان سے بھی مطمن نہیں ہوتے تھے۔ یہ ایک مطلق طور گندی صورت حال ہے کہ کسی انسان کی اس قدر تحقیر و تذلیل ہو، عورت کو تو جانور بنا دیا گیا تھا۔ اس سب سے بڑھ کر وہ خوب صورت لڑکیوں کو نیلامی میں بولی دے کر خریدا کرتے تھے۔
لوگ بھول جایا کرتے ہیں، وقت تبدیل ہو جاتا ہے، لفظوں کو نیا رنگ مل جاتا ہے۔ اب ہندوستان میں لفظ ”وادو” کا سادہ سا مطلب ہوتا ہے نئی شادی شدہ عورت لیکن رگ وید کے زمانوں میں ”وادو” کا مطلب ہوتا تھا ایسی عورت جس کو بازار سے تازہ تازہ خریدا گیا ہو۔
ہر نام نہاد غیب دان دو قسم کی عورتیں رکھا کرتا تھا۔ پہلا گروپ اس کی بیویوں کا ہوتا تھا اور دوسرا ”وادوں” کا، لفظ ”وادو” احترام کے قابل نہیں ہے، اس کا سادہ سا مطلب تھا ”طوائف” یعنی خریدی ہوئی عورت جس کو کسی بھی وقت بیچا جا سکتا تھا اور حیرت کی بات ہے کہ بیوی سے جنم لینے والے بچے قانونی اولاد ہوتی تھی جبکہ خریدی ہوئی بیوی کے بچے قانونی اولاد نہیں ہوتی تھی۔
انسان نے دوسرے انسانوں کی اتنی زیادہ تحقیر و تذلیل کی ہے کہ اس کا شمار بھی ممکن نہیں۔ کوئی بچہ کیسے غیرقانونی ہو سکتا ہے؟ والدین تو غیرقانونی ہو سکتے ہیں لیکن ایک بچہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ہر بچہ اتنا ہی معصوم ہوتا ہے جتنا کہ کوئی دوسرا بچہ۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ بچے کو کسی طوائف نے جنم دیا ہے یا کسی خریدی ہوئی عورت نے یا بیوی نے۔ ہر صورت میں بچہ مطلق طور پر قانونی ہوتا ہے۔ لیکن رگ وید اپنی ذمہ داریاں دوسروں پر تھونپے میں بہت تیز ہوتے ہیں۔ والدین کو کبھی غیرقانونی نہیں کہا جاتا ہے بچوں کو غیرقانونی کہا جاتا ہے۔
یہ غیب داں بے شمار دولت اکٹھی کرتے ہیں، بہت سے غلام رکھتے ہیں، گوشت کھایا کرتے ہیں، ان کی پوجا پاٹھ اتنی احمقانہ ہوتی ہے کہ انسان کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ایسے ایسے لوگ عظیم غیب داں کہلاتے ہیں۔ ان کی پوجا پاٹھ رگ وید میں درج ہے اور رگ وید اٹھانوے فی صد پوجا پاٹھ پر مشتمل ہے۔ صرف دو فی صد کی اس طور سے تعبیر کی جا سکتی ہے جو کچھ اہمیت کی حامل ہو اور جو یقین کے قابل ہو وگرنہ رگ وید کا اٹھانوے فی صد ایسی پوجا پاٹھ پر مشتمل ہے کہ آپ یقین ہی نہیں کرو گے۔
ایک غیب داں بھگوان سے پراتھنا کرتا ہے ”اے میرے بھگوان! اس بار میری پراتھنا سن لے، تمہارے بادلوں کو صرف میرے ہی کھیتوں پر برسنا ہے، میرے دشمنوں کے کھیتوں پر نہیں، تم نے کبھی میری نہیں سنی ہے لیکن اس بار میں بہت سی گائے، بہت سے گھوڑوں کی قربانی دے رہا ہوں اور تمہیں سننا ہو گی۔ مجھے مزید بچے دو اور میرے دشمنوں کو ایک بھی بچہ مت دو۔” دوسرے غیب داں بھی پراتھنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی پراتھنائیں جو انتہائی احمقانہ دکھائی دیتی ہیں۔ ”اگر تم مہربان ہو تو مجھے اس کا ثبوت دو میرے دشمن کی گائے کے تھنوں کا دودھ سوکھ جانا چاہئے۔”ایسے ہوتے ہیں مذہبی لوگ! مجھے فتح دو، میرے دوستوں کو فتح دو اور میرے دشمنوں اور ان کے دوستوں کو شکست دو۔ افسوس اس قسم کے غیب دانوں پر اور اس قسم کے مذہبی پیشواؤں پر۔ یہ ہے ان لوگوں کی فہم اور یہ ہے ان لوگوں کی آگہی۔ عورت جو دنیا کی نصف آبادی ہے، جس کی گود میں اس قسم مکار پالے گئے ہیں پھر وہ اپنے آپ کو دانا سمجھ کر اس قسم کے فرسودہ تصورات اور خیالات پھیلا دیتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا لیکن توہمات کے مارے ہوئے لوگ ان کے گرد جمع ہو کر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ مشعل راہ سمجھتے ہیں اور ہر سننے والے کو اتنا ہیپناٹائز کر دیتے ہیں کہ وہ اتنا بھی سوچنے کے قابل نہیں ہوتے کہ اس مذہبی مکار سے پوچھے کہ تم اپنی ماں، بہن، بیٹی اور پھوپھی وغیرہ سے اتنے نالاں کیوں ہو؟ تم اس بطن کو اتنی حقیر نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہو جس سے تہمارا جنم ہوا ہے؟ تم اس گود کو کیوں برا بلا کہتے ہو جس میں آپ کی پرورش ہو چکی ہے؟ اگر سننے والوں میں تھوڑی بہت عقل اور فہم کے ذرات قدر ہوتے تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے اور اس قسم کے مبلغ کو دیوانہ اور جنسی مریض قرار دے دیتے۔