ساجد ابو تلتان
اللہ تعالی نے انسان کو بولنے اور سننے کی قوت اس لیے عطا فرمائی ہے، تاکہ وہ عقل و فہم سے اپنا علم اور تجربہ دوسروں تک پہنچا سکے۔ یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ انسان اپنی ضروریات کے تحت ہمیشہ نئے نئے الفاظ بناتا ہے اور پرانے الفاظ کا استعمال ترک کرتا جاتا ہے۔ پس جس زبان میں بیرونی زبان کا لفظ قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہو، وہ زندہ رہتی ہے۔ گویا دخیل الفاظ کی آمیزش جس زبان میں زیادہ پائی جاتی ہے، وہ زبان زیادہ ترقی کرتی ہے۔ اس قسم کی زبان تخلیطی زبانی کہلاتی ہیں۔
تخلیطی زبانوں میں اردو کا نام نمایاں بھی ہے اور بلند بھی۔ الفاظ کو سمیٹنے کے لحاظ سے دنیا کی شاید ہی کوئی زبان اردو کے قریب آسکے۔ اردو میں تورید کے عمل کے دو طریقے ہیں۔ ایک ”املائی تورید“ اور دوسرا ”مصنوی تورید۔“ املائی تورید میں “Tomato” سے ٹماٹر اور “Bottle” سے بوتل، جن سے آگے ٹماٹروں، بوتلوں اور بوتلیں جیسے جمع کے صیغے بنے۔
مصنوی تولید میں امیر اور غریب کو لیجیے، جن کے اردو میں رائج معنی ان کی ماخذی زبان سے بالکل مختلف ہیں۔
عام طور پر دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کو ساختی اعتبار سے تین بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلے گروپ میں تجریدی زبانیں شامل ہیں۔ ان کے الفاظ کی تعداد کم ہوتی ہے۔ کیوں کہ ان کے الفاظ کسی لفظ سے اخذ شدہ ہوتے ہیں اور نہ ان الفاظ سے کوئی نیا لفظ ہی بنایا جا سکتا ہے۔ چینی زبان اس کی بڑی مثال ہے۔
زبان کا دوسرا گروپ ترکیبی ہے، جس میں پائی جانے والی زبانوں میں ایک لفظ سے دوسرا لفظ تو بن جاتا ہے، لیکن اس کی صورت سابقے یا لاحقے کی سی ہوتی ہے۔ ترکی زبان اس گروپ کی ایک قابل ذکر زبان ہے۔
تیسرا گروپ جو پہلے بیان ہوا ہے تخلیطی زبانوں کا ہے۔ ان میں ایک لفظ کے کئی الفاظ، تراکیب اور افعال وضع کیے جا سکتے ہیں۔ اس قبیل کی سب سے بڑی خوبصورتی دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے قالب میں ڈھال کر اور پھر ان سے مزید الفاظ و تراکیب گھڑ لینا ہے۔ جن کا نام و نشان تک ماخذی زبان میں نہیں ہوتا جیسا کہ درجِ بالا سطور میں اردو سے متعلق بیان ہوا ہے۔
عربی زبان بھی کچھ حد تک تخلیط کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مثلاً ایک معروف لفظ جو عربی زبان کے لہجے اور مخارج کے مطابق معرب کیا گیا ہو، بالکل عربی لفظ معلوم ہوتا ہے جیسے چراغ سے سراج، کیبنٹ سے کابینہ، بشر سے بشرہ اور پیل سے فیل وغیرہ۔
اسی طرح پشتو زبان میں بھی دوسری زبانوں کے الفاظ جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہاں ہم الفاظ کی لہجوی تبدیلی اور تراکیب کا ذکر ہرگز نہیں کرتے، بلکہ مختلف زبانوں کے وہ الفاظ درج کرتے ہیں جو اُردو کے ساتھ ساتھ پشتو اور دیگر مقامی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
عربی:۔ اجل، اتفاق، احترام، اجازت، اذان، اصلی، باغ، بالغ، بدل، تاجر، تجربہ، تحصیل، تربیت، تقسیم، توبہ، تہجد، ثواب، ثنا، جاہل، جمع، جرم، جلوس، حال، خلوص، خیر، خیال، داخل، دفن، دلیل، درجہ، ذخیرہ، ریاست، رسالہ، رشوت، رقم، زیارت، زینت، سبق، سلام اور سودا وغیرہ۔
فارسی:۔ آباد، آزاد، انجام، آواز، باز، بازار، برابر، بندہ، بندوبست، پابند، پرہیز، پالنگ، پردہ، تازہ، تنگ، تیز، جدا، جنگ، چمن، چنار، چندہ، خوش، خدا، داغ، دروازہ، دوست، زخم، سزا، سوداگر، سمندر، عقلمند، فوجی، کوہستان، گرم، لنگر، نوکر اور زر وغیرہ۔
انگریزی:۔ آرڈر، اپیل، بٹن، بال، بس، بسکٹ، پارٹی، پاسپورٹ، پولیس، ٹریفک، ٹیلی ویژن، جج، چاکلیٹ، ڈاکٹر، ڈرم، رجسٹر، رپورٹ، سائیکل، فلم، فیشن، فرنیچر، کالر، گورنر، گودام، لیڈر، ماسٹر، نرس، ویزا، اور ہوٹل وغیرہ۔
ترکی: شاگرد، بہادر، شلوار، قابو، قینچی، چاق و چوبند، جراب، توپ، بارود، لاش، سراغ، سوغات، خانم، خان، بیگ، بیگم، باجی اور بی بی وغیرہ۔
ہندی:۔ اناڑی، انگیٹھی، آرا، باجرہ، باسماتی، بجلی، بیٹھا، بیٹھک، پاپڑ، پاگل، پٹواری، پتنگ، پٹھان، پڑتال، پیدل، پاٹک، تالا، تجوری، تھانہ، ٹاپو، ٹال، ٹبر، ٹٹو، جھنڈا، چمٹا، چاند، دھاڑی، دھرنا، دھماکا، ڈوب، ڈیوٹی، رسولی، گملا، لوکاٹ، منجھیلا، ناپ، ناڑی، نالہ اور ہتھکڑی وغیرہ۔
پرتگیزی:۔ اچار، انناس، تمباکو، الماری، بالٹی، چابی، کپتان، میز، گرجا، بمبا، نیلام، مستری، کمرہ اور پیسہ وغیرہ۔
یونانی:۔ کانانوس سے کنون یا قانون، دیفیتھرا سے دفتر، سوفوس سے صوفی، بھیلگم سے بلغم اور کافینوس سے کھپن یا کفن وغیرہ۔
پس جس زبان میں الفاظ اخذ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، وہ زبان دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ چاہے لوگ اسے خالص زبان کہیں یا علمی۔ خوش قسمتی سے اُردو زبان کی طرح پشتو زبان بھی تخلیطی صلاحیت رکھتی ہے گو کہ اس میں آئے روز الفاظ تیزی سے متروک ہو رہے ہیں، لیکن ان کے مقابلہ میں دخیل الفاظ کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ شعرا نئے نئے الفاظ کو پشتو سانچا میں ڈال کر نئے اور اچھوتے معنی دے رہے ہیں۔ ادبی اور علمی کتب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر سرکاری سرپرستی مل جائے تو وہ دن دور نہیں جب پشتو زبان کے دامن میں ہر طرح کے علوم آجائیں گے۔