سلیمان ایس این
بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
دنیا میں کچھ انسانی رشتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ان رشتوں میں بڑا رشتہ والد اور والدہ کا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر والدہ کے رشتے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے، اور اس کا اظہار بھی ہمیں مختلف صورتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے برعکس ہم والد کے رتبے سے محبت تو بہت کرتے ہیں مگر اس کے اظہار میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔ حالانکہ والد اور والدہ دونوں کا سایہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور دونوں کی اپنی اپنی اہمیت بھی ہے جسے کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماں کے قدموں تلے اگر جنت ہے تو باپ بھی جنت کا دروازہ ہے، جو اولاد کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ میں جانتا ہوں جو بچے، بچیاں بچپن میں ہی یتیم، یا عورتیں جوانی میں ہی بیوہ ہوتی ہیں وہی والد یا خاوند کے دکھ کو محسوس کرسکتی ہیں۔
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
میرے والد بخت روان (کاکا) کو اس دنیا سے گئے 12 دن ہو گئے ہیں۔ ۔آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنے والدِ گرامی کی ساری جدوجہد میرے سامنے ہے جو میں نے دیکھی۔ میری زندگی کا اہم سرمایہ باقی بہن بھائیوں کی طرح ماں اور باپ کی شفقت تھی۔ والد گرامی کے سامنے ہمیشہ کاغذ، قلم، اخبارات و رسائل، کتابیں موجود ہوتیں اور وہ پڑھتے ہوئے نظر آتے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر عالمی نشریاتی اداروں کے تبصروں اور تجزیوں کو سننا، یا ان کے کریانہ دوکان آئے ہوئے دوستوں،ہمسایوں سے سیاسی، سماجی، مذہبی موضوعات پر گفتگو ان کا خاصہ تھا۔
والدِ گرامی نے ایک پٹھان میر خیل خاندان میں آنکھ کھولی، بہن بھائیوں میں ان کا نمبر چھٹے پر تھا
میں آج جہاں کھڑا ہوں اور جو کچھ لکھنا، پڑھنا، بولنا سیکھا ہے اس میں میرے والدِ گرامی کا بہت اثر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ شخصی ٹکرائو میں مت الجھنا کیونکہ یہ عمل انسانی شخصیت کو کمزور کرتا ہے، اور فرد کو بہت زیادہ بنیاد بنانے کے بجائے اجتماعی پہلوئوں، نظام کی خرابیوں اور اس میں اصلاح کو اپنے مکالمے کا حصہ بنائو۔ ان کے بقول انسانی کردار مسئلے میں بگاڑ پیدا کرنے کے بجائے اس کو حل کرنے کا ہونا چاہیے، اور ایسے ہی لوگ معاشرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی ماخذ انسانی تربیت کا پہلو تھا، اور ان کے بقول جب تک ہم اپنی تربیت کے نظام کو اصلاحی عمل سے نہیں جوڑیں گے، ہماری سیاست اور سماج دونوں بگاڑ کا شکار رہیں گے۔
میرے والدِ گرامی نے 28برس شوگر جیسے موذی مرض کا بڑی جرأت سے مقابلہ کیا۔ حالانکہ 2013ء میں عملی طور پر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، مگر میرے والد نے اس مرض کا اپنی ہمت سے مقابلہ کیا، وہ کہتے تھے کہ ابھی میری زندگی بہت زیادہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو مجھ سے بہت سا کام لینا ہے۔ انہوں نے اپنی بیماری اور معاشی تنگ دستی کو کبھی بھی اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیا، اورجہاں بھی کام کیا بڑی جرأت، عزت اور وقار کے ساتھ کیا،
اگرچہ والد صاحب کی وفات کو12 دن گزرگئے، مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔ کمرے میں ان کی البم میں تصویر کی موجودگی ان کے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ جب کبھی تھک ہار کر بیٹھتا ہوں تو والد صاحب کی یادیں مجھے نیا حوصلہ دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے، والد صاحب کہا کرتے تھے کہ جو لوگ حالات و واقعات کو بنیاد بناکر ہمت ہار جاتے ہیں، یا اللہ پر ان کا بھروسا کم ہوتا ہے وہ کوئی بڑی جنگ نہیں جیت سکتے۔ ان کے یہ الفاظ ہمیشہ میرے ساتھ ہیں اور مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمیں ہمت نہیں ہارنی بلکہ اپنی زندگی کی اس جنگ کو اللہ پر بھروسا کرکے محنت، اصول، دیانت داری کو بنیاد بناکر ہی لڑنا ہے۔
مجھ کو چھائوں میں رکھا خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں
میرے والد ایک وسیع المطالعہ فرد تھے اور اپنے نظریات، سوچ اور فکر سے ہٹ کر دوسروں کی سوچ اور فکر کے مطالعے کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ ہمیں بھی ان کا درس یہی تھا کہ دوسروں کے نظریات اور فکر سے اختلاف کے باوجود نفرت اور تعصب سے گریز کرو، اور دوسروں کی فکر کو عزت دینا سیکھو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے والد کے دوستوں میں ہر طرح کے نظریات، سوچ اور فکر کے لوگ تھے، ان کے دوست اور ساتھی اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ ایک اصولی، نظریاتی اور دیانت داری انسان تھے
عاجزی اور درویشی والدِ گرامی کے مزاج کا حصہ تھی۔ نہایت سادہ زندگی گزاری۔ کہا کرتے تھے کہ اگر تم اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتے ہو تو اپنے رہن سہن کو سادہ، اور کفایت شعاری اور قناعت پسندی کو بنیاد بنائو، جبکہ تعصب، نفرت، بغض اورلالچ سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ یہ بیماریاں انسانی زندگی کو مشکل بناتی اور دیمک کی طرح چاٹتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ کبھی سختی نہیں کرتے تھے، اور والدہ کے کہنے پر بھی بس خاموشی اختیار کرلیتے اورکہتے کہ بے جا سختی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ خاموش طبع تھے اورکام کی ہی بات کرتے تھے۔ البتہ ان کی بے تکلفانہ گفتگو کا ایک انداز ہم نے والد صاحب اور اپنی پیاری مرحومہ پھوپھی معراجہ بی بی کے درمیان دیکھا، جہاں وہ اپنے بچپن کے قصوں کا تبادلہ کرتے اور خوب انجوائے کرتے تھے۔ دونوں بہن بھائی کا پیار خوب دیکھا اور والد صاحب کو ہنستے ہوئے دیکھ کر ہمیں بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ ہماری والدہ اور والد نے ایک دوسرے کی بیماری میں جیسے ایک دوسرے کا ساتھ دیا وہ کمال تھا، بہرحال والد صاحب کی یادیں ہمیشہ میرے اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ہیں۔ ان کی یادیں ہمیشہ آنکھیں بھگو دیتی ہیں اور احساس دلاتی ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہی کھڑے ہیں اورہم نے اُن کی انگلی تھامی ہوئی ہے۔ بقول حسن نثار
میں جب ماحول میں تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آنکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتا ہوں
جب والد صاحب سے جدائی کی گھڑی قریب آگئی۔ ابا جی کی سانسیں اُکھڑتی جارہی تھیں۔ مجھے لگا اُن کی نہیں میری جان نکل رہی ہے۔ میرے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا تھا، جیسے موت میرے سامنے میرے ابا جی کو لے جاتے ہوئے شرما رہی ہو، میری بے بسی اُس لمحے عروج پر تھی ،مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔ پھر میرے کانوں میں آواز پڑی”اناللہ وانا الیہ راجعون۔“میں نے ابو جی کا چہرہ دیکھا۔ اتنا اطمینان، اتنا سکون، اتنی معصومیت ان کے چہرے پر تھی، جیسے کوئی بچہ پیدا ہوتے ہی فوت ہوگیا ہو!!
بقول قتیل شفائی