ڈاکٹر سردار جمال
ماہر لسانیات اور ماہر ارضیات کی تحقیق کی رو سے پشتون قوم ایک پرانی قوم ہے اور اس کی زبان بھی پرانی زبان ہے اور اب ولیم جونز کا دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ اب زبانوں کی وہ ماں اس دنیا میں نہیں ہے
سعد اللہ جان برق صاحب کی یہ کتاب 2017 میں عامر پرنٹ اینڈ پبلشر پشاور کی طرف سے چھپی ہوئی ہے جو کہ 133صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی شروعات برق صاحب نے اپنی ان باتوں سے کی ہے جن میں ادیب، شاعروں اور حکمرانوں سے بڑی مہارت کے ساتھ طنزو مزاح میں وہ مخاطب ہوئے ہیں۔ برق صاحب لکھتے ہیں کہ یہ کتاب میں نے دس سال پہلے لکھی ہے مگر بعض مکار اور دروغ گو ادیبوں اور افسران بالا کی وجہ سے یہ کتاب تعطل کا شکار رہی اور آخر میں یعنی 10 سال بعد حاجی فیرور خان آفریدی نے کتاب چھاپنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی، اب یہ کتاب تمہارے ہاتھوں میں ہے۔
برق صاحب نے پشتو زبان کے حوالے سے جو تاریخی بات شروع کی ہے وہ ہے ”ام لاسنہ” یعنی زبانوں کی ماں۔ برق صاحب آگے لکھتے ہیں کہ ہر قوم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہماری زبان تمام زبانوں کی ماں ہے۔ مگر یہ سب ہوا میں تیر مارنے کے مترادف ہے۔ ضروری یہ ہے کہ تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور پھر فیصلہ کیا جائے کہ ماں کون سی زبان ہے اور ماں کی کون کون سی بیٹیاں زبانوں کی شکل میں دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری یہ ہے کہ سب سے پہلے تاریخی نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔ اس بارے میں دو قسم کے نظریات سامنے آتے ہیں۔ ایک یہودی، عیسائی اور اسلامی نظریہ ہے جس میں تمام انسان حضرت آدم علیہ کی اولاد ہیں اور تمام انسانوں کی زبان ایک تھی۔ دوسرا نظریہ سائنسی یعنی ارتقائی نظریہ ہے جس میں یک خلوی سے کثیر خلوی بن کر آخر میں انسان نما انسان ارتقائی مراحل سے گزر کر انسان بن گیا۔ اب دونوں جگہوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر مذہبی نقطہ نظر سے تمام انسانوں کی صرف ایک زبان تھی تو وہ کون سی زبان تھی؟ دوم جو ارتقائی نظریہ ہے اس کے مطابق پہلی زبان کون سی تھی؟ برق صاحب نے جو تحقیق کی ہے وہ بہت عالمانہ ہے۔ ان کی تحقیق دونوں نظریات کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ انہوں نے اپنی بات آیت کریمہ یعنی ”کن فیکون” سے شروع کی ہے۔ ”کُن” اس وقت ہوئی جب آج سے چالیس کروڑ سال پہلے ٹیکٹانک موومنٹ ہوئی۔ ماہر ارضیات اس کو زمین کی پہلی قیامت تصور کرتے ہیں۔ ٹیکٹانک موومنٹ کا عمل اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”کُن” تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہوتا رہے گا یہ ”فیکون” ہے۔ جب زمین وجود میں آگئی تو زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل تھا اور اب بھی کرہ ارض کا زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔
1786ء میں ماہرلسانیات ولیم جونز نے بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کے ایک اجلاس میں لیکچر دینے کے دوران کہا کہ دنیا میں آج کل جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں ان تمام زبانوں کی ماں ایک تھی مگر وہ ماں اب نہیں ہے۔ ولیم جونز کے اس تقریر کے بعد ہر زبان بولنے والے کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ وہ ماں کون تھی؟ یہاں سے زبانوں پر تحقیق شروع ہوئی اور یہ سوچ شروع ہوئی کہ وہ ماں، جو تمام زبانوں کی ماں تھی اور اب نہیں ہے وہ کون سی زبان ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ طبعی علوم سے استفادہ کیا جائے۔
جب زندگی وجود میں آگئی خواہ وہ یک خلوی حیات تھی یا کثیر خلوی حیات تھی، دونوں کے لیے طبعی علم ضروری ہے۔ طبعی علوم کے تحت کمزور طاقتور کے لیے خوراک کا ذریعہ ہے۔ جب دنیا پر حیات آئی تو ضروری بات ہے کہ اس میں کمزور مخلوق بھی تھی اور طاقتور بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور طاقتور کا لقمہ اجل بنا ہوا ہو گا جیسا کہ علامہ اقبال کا شعر ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اس سلسلے میں یونانی اساطیر میں ایک قصہ بیان کیا گیا ہے کہ ایسی میتھس دیوتا جب جانور بنا رہے تھے چونکہ وہ زیادہ عقل مند نہ تھا اس وجہ سے اس نے کام کی اہم چیزیں مثلاً طاقت، مضبوط جسم، تیز ناخن، دانت اور سینگ وغیرہ جانوروں کو دے دیں اور جب انسان کی باری آئی تو کام کی کوئی چیز باقی نہ رہی۔ آخر میں اس نے اپنے بھائی پرومیتھس سے مدد لی۔ اس نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا کہ انسان کو عقل دیا کرو۔ اس طرح اس نے بھائی کی بات مان لی اور انسان نے اپنی عقل کی بدولت تمام جانوروں پر برتری حاصل کی اور سب سے زیادہ پیش رفت جو انسان نے عقل کی بدولت کی ہے وہ ہے زبان تخلیق کرنا۔
زبان کی تاریخ کے حوالے سے بہت سارے حوالے اور دلائل پائے جاتے ہیں۔ قرآن مجید اس بارے میں ارشاد فرما رہا ہے کہ ہم نے آدم کو تخلیق فرمایا اور ان کو چیزوں کے نام بتا دیئے۔ چیزوں کے نام بتا دینا اصل میں زبان کی ابتدا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پہلی زبان کون سی تھی خواہ وہ مذہبی حوالے سے ہو یا ارتقائی حوالے سے؟ اس بارے میں جو تحقیق کی گئی تو یہ حقیقت سائنسی طور پر ثابت ہوئی کہ حیات کی ابتداء وسطی ایشیاء میں ہوئی ہے۔ پھر یہ بات بھی ثابت کر دی گئی ہے کہ سب سے پہلے وسطی ایشیاء میں ہی زبان بولی گئی ہے۔ ضروری بات ہے۔
زبان انسان کی زبان ہوتی ہے اس لیے سب سے پہلے زبان اس جگہ بولی گئی ہو گی یا تخلیق کی گئی ہو گی جہاں انسان موجود تھا۔ اور جہاں پہلا انسان رہتا تھا وہ سفید پوش انسان تھا جو کہ بکت، بخد، بلخ، باختر اور بخدی کے ناموں سے مختلف تاریخو ں کتابوں میں یاد کیے گئے ہیں۔ انہی ناموں سے آخر میں جو نام بنا وہ ”پختون” ہے۔ جب لوگ بڑھتے گئے اور خوراک کی قلت محسوس ہوئی تو بعض لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو کر ادھر ادھر جا کر دنیا کے مختلف حصوں میں آباد ہوئے۔ جو لوگ اسی حالت میں اپنی جگہ پر یعنی پہاڑوں میں مستقل سکونت پذیر ہوئے تو ان کی زبان اپنی درست حالت میں رہی اور وہ زبان پشتو ہے اور جو لوگ ادھر ادھر جا کر آباد ہوئے ان کی زبانوں نے اپنی شکلیں تبدیل کر دیں اور آج اس زبان سے کئی اور زبانیں بنی ہیں۔
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ماہر لسانیات کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں پشتون وہ واحد قوم ہے جو دنیا کی ہر زبان سیکھ سکتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پشتون کا ووکل سسٹم اتنا مضبوط اور ترقی یافتہ ہے جو دنیا کی ہر زبان کا لفظ بول سکتا ہے۔ ووکل سسٹم سینے یعنی پھیپھڑوں اور ڈایافرام سے ہوتے ہوئے گلے تک اور گلے میں مختلف اعضاء اپنا رول ادا کر کے زبان اور زبان کے ساتھ دانتوں کی بناوٹ اور آخر میں ہونٹیں کار فرما ہوتی ہیں۔ اگر ایک عربی زبان بولنے والے پر ”ب” اور ”ڈ” بولنے کی مشق کرائی جائے تو یقیناً وہ چند مہینوں میں اس قابل ہو جائے گا کہ وہ ان الفاظ کا محزج سیکھ جائے گا مگر جینٹیکلی ان الفاظ کے سیکھنے میں اس کو ہزاروں سال لگیں گے۔ اسی طرح اگر ایک انگریز کو پشتو زبان کے حروف مثلاً ”ٹ” اور ” &” وغیرہ سکھانے کی کوشش کی جائے تو اس کی آئندہ نسلیں ہزاروں سال بعد ان الفاظ کی ادائیگی کے قابل ہو جائیں گے۔ الغرض پشتون نے جو اتنے سارے الفاظ اور ان کے مخرج سیکھے ہیں یہ ہزاروں سال کی داستان ہے۔
اسی طرح الفاظ کی ادائیگی کے حوالے سے بے شمار مثالیں ہیں جو دوسری زبانوں میں نہیں ملتیں۔ ماہر لسانیات اور ماہر ارضیات کی تحقیق کی رو سے پشتون قوم ایک پرانی قوم ہے اور اس کی زبان بھی پرانی زبان ہے اور اب ولیم جونز کا دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ اب زبانوں کی وہ ماں اس دنیا میں نہیں ہے۔ وہ زبانوں کی ماں اب بھی دنیا میں موجود ہے اور وہ ہے پشتو زبان۔