ویسے تو قدیم سوات ادھیانہ کے تبت سے کئی راہب اور زائرین نے سفر کئے ہیں لیکن یہاں چند ایک کا زکر لازمی ہے ،یہاں اس بات کا بھی زکر کرنا ضروری ہے کہ ادھیانہ پر سب سے زیادہ قابل اعتماد تحقیق کام پروفیسر ٹوچی نے ہی کیا ہےاور حقیقت بھی یہی ہے کے پروفیسر ٹوچی کی کئی سالوں پر محیط تحقیق ہی کی وجہ سے دنیا نے سوات کو ادھیانہ مانا ہے.

پروفیسر ٹوچی کے مطابق جب وہ تبت میں ہوتے تھے تو بے شمار قدیم کتابوں سفر ناموں اور راہبوں کی آپ بیتیوں میں انہوں نے ارجن / اور جان(تبت میں ادھیانہ کو ارجان یا ارجن کہتے تھے) کے بارے میں پڑھا تھا اس وقت تک ادھیانہ تبت میں ویجرایانہ یا تانتریک بدھ مت کے لئے انتہائی مقدس جگہ تصور کیا جاتا تھا کیوں کہ وہ کہتے تھے کہ ادھیانہ میں ہی پدما سمباوا نے جنم لیا تھا اور ویجرایانہ بدھ مت کو تبت اور اس سے آگے پھیلا یا تھا.

تبت کے ادب میں ادھیانہ انڈیا کے شمال مغربی خطہ میں واقع انتہائی مقدس اور خوبصورت علاقہ ہے۔اور یہی وجہ تھی کہ پروفیسر ٹوچی ادھیانہ کے کھوج میں پہلے نیپال اور پھر سوات آئے اور انتہائی محنت اور سالہا سال کی تحقیق کے بعد انہوں نے سوات کو ادھیانہ ثابت کردیا ۔

پروفیسر ٹوچی جوکہ مشہور مستشرق اور تبت کے ماہر علوم ہیں،نے Travels of Tibetan pilgrim in the Swat valley ” لکھا اور چھاپا جس میں دو انتہائی قابل احترام تبتی راہبوں یعنی ارجن پا یعنی ارجن کا آدمی یا ادھیانہ کا آدمی اور دوسرا تگ تسن راز پا کا زکر کیا ہے یہاں یہ بات قابل زکر سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں تبتی زائرین سوات اس زمانے میں آئے ہیں کہ جب کہ جب اسلام اس خطے میں داخل ہوچکا تھا

ارجن پا اور تگ تسن راپا کے سفر نامے پروفیسر ٹوچی نے انگریزی میں ترجمہ کئے ہیں جس میں میں یہاں چند اقتباسات کا ترجمہ پیش کرونگا ۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے


سوات کے مصنف اور کالم نگار فضل خالق کے کتاب ” ادھیانہ :سوات کی جنت گم گشتہ” سے اقتباس