رفعت اللہ اورکزئی
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وادی سوات سٹیٹ دور میں 1958 کی دہائی میں دریافت ہونے والی قیمتی پتھر زمرد کی کانوں کا شمار دنیا کی بڑی کانوں میں ہوتا ہے تاہم حکومت اور متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی اور بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کے باعث ان ذخائر سے کوئی قابل ذکر منافع حاصل نہیں کیا جا رہا۔

بین الاقوامی معیار کے قیمتی پتھروں کی یہ کانیں سوات کے صدر مقام مینگورہ کے مشہور اور پر فضا مقام فضا گٹ کے قریب واقع ہیں۔ تقریباً چھ کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ان کانوں کی دریافت سابق حاکم سوات کے دور میں 1958 میں ہوئی تھی۔

یہ معدنیات فضا گٹ کے علاوہ سوات کے ایک اور علاقے شموزئی اور ضلع شانگلہ میں بھی پائی جاتی ہیں آج کل زیادہ مینگورہ کی کانوں میں کھدائی کا کام جاری ہے
زمرد کی کانیں ایک وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں جہاں کان کن قیمتی پتھروں کی تلاش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ تاہم یہ مزدور آج کے اس جدید دور میں بھی پتھر نکالنے کےلیے روایتی طریقے ہی استعمال کر رہے ہیں۔
محمد اقبال گزشتہ کئی سالوں سے زمرد کی کان کنی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کان کے اندر کام کرنا انتہائی کٹھن اور خطرناک ہے کیونکہ پتھر کے اندر سرنگ لگانا آسان کام نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پتھر نکالنے کے لیے مہارت درکار ہے اور یہاں عام مزدور کام نہیں کر سکتا۔
ان کے مطابق کھدائی کے لیے وہ مشین بھی استعمال کرتے ہیں لیکن اکثر اوقات بجلی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مزدوروں کو پہاڑ چیرنے کے لیے ہاتھوں سے کام کرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول ’روایتی طریقوں سے کام کرنے کی وجہ سے نہ صرف وقت زیادہ لگتا ہے بلکہ کام بھی مہارت سے نہیں ہوتا جس سے حکومت اور ٹھیکیدار دونوں کو نقصان ہو رہا ہے۔‘
زمرد سبز رنگ کا قیمتی پتھر ہے جو عام طور پر زیورات میں استعمال ہوتا ہے۔
قیمتی پتھروں کے ماہرین کے مطابق زیادہ تر زمرد کے پتھر ایک سے پانچ قیراط کے ہوتے ہیں جس کی قیمت مارکیٹ میں پچاس ہزار روپے سے لے کر لاکھوں روپے تک ہوتی ہے تاہم قیمت کا دارومدار پتھر کی کٹائی اور کوالٹی پر ہوتا ہے۔
حکومت نے مینگورہ کی ان کانوں کو ایک مقامی نجی کمپنی کو دس سال کے مدت کےلیے ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ کانیں تقریباً 15 سال تک بند رہیں جس کے باعث قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ سوات میں جب طالبان کا دور تھا تو زمرد کی یہ کانیں کئی ماہ تک ان کے زیر قبضہ بھی رہیں۔
زمرد کی کانوں کی ٹھیکیدار نجی کمپنی کے ایک منیجر نے بتایا کہ طالبان کے دور میں ان کانوں میں انتہائی غلط انداز میں کٹائی کی گئی جس سے قومی خزانے کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ طالبان شدت پسندوں کے جانے کے بعد ان تمام کانوں کو بند کر دیا گیا اور پھر سے نئی کانیں کھودنی پڑیں جس سے کافی وقت لگا اور رقم بھی خرچ ہوئی۔
عبدالباسط کے بقول علاقے میں زمرد کی دریافت کے کئے برس بعد بھی ان کانوں میں بنیادی ڈھانچے کا شدید فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ کانوں تک جانے کےلیے سڑک بدستور کچی ہے جس پر چھوٹی گاڑیاں بمشکل جا سکتی ہیں جبکہ کانوں کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کوئی انتظام موجود نہیں ۔
ان کے بقول زمرد کی کانوں سے تقریباً چار سو مزدروں کا روزگار وابستہ ہے تاہم حکومت کی جانب سے ان کان کنوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت بھی میسر نہیں۔
ان کے مطابق زمرد کا شمار دنیا کے چار قیمتی پتھروں میں ہوتا ہے لیکن حکومت اور متعلقہ اداراوں کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث ان بیش بہا کانوں کو منافع بخش نہیں بنایا جا سکا ہے۔