الحاج زاہد خان
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو) ایک لیگل وجود ہوتا ہے۔ جہاں بنیادی اور ابتدائی طور پر مریضوں کا علاج معالجہ عمل میں لایا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس ”ٹیچنگ اسپتال“ میں ٹیچنگ سٹاف پڑھائی وغیرہ کرتے ہیں اور سٹوڈنٹس ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔ ثانوی طور پر ٹیچنگ اسپتال میں مریضوں کا علاج معالجہ ہوتا ہے۔ ڈی ایچ کیو کا لیزان اور کوآرڈی نیشن ڈسٹرکٹ جوڈیشری، محکمہئ صحت، محکمہئ تعلیم اور ڈسٹرکٹ پولیس کے ساتھ مختلف امور میں ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔
ڈی ایچ کیو سوات کو ریاستِ سوات کے زمانے میں ریاست کے والی میاں گل عبد الحق جہانزیب نے 1940ء میں بنایا تھا۔ یہ اس وقت اپنی نوعیت کا جدید ترین ہسپتال تھا، جس میں مریضوں کو مفت علاج معالجہ، خوارک اور ڈاکٹروں کو تمام سہولیات میسر تھیں۔ بعد ازاں جب یہاں پر 2004ء اور 2006ء میں میڈیکل کالج کے لیے ضرورت لاحق ہوئی، تو مذکورہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کو کیٹیگری اے ہسپتال کا درجہ دیا گیا، اور یوں اسے حکومت نے ٹیچنگ ہاسپٹل میں تبدیل کرکے پانچ سو بستروں پر محیط نئے ٹیچنگ ہسپتال کا ایک میگا منصوبہ بنایا، جسے سرکاری طور پر ”سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہاسپٹل“ کہا جاتا ہے۔
مذکورہ میگا منصوبہ حال ہی میں پایہئ تکمیل تک پہنچایا جا چکا ہے اور اسپتال کی شروعات ہوچکی ہے۔ صوبائی حکومت نے وقتاً فوقتاً اس مد میں اس بات کی صراحت اور وضاحت کی ہے کہ جب نیا ہسپتال مکمل ہوجائے گا، تو ڈی ایچ کیو کی پرانی حیثیت بحال کر دی جائے گی۔ اس نسبت صوبائی حکومت نے ڈی ایچ کیو کی بحالی کی نسبت 2007ء میں نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ٹیچنگ ہسپتال نے اپنا کام شروع کر دیا ہے، لیکن انتظامی اتھارٹیز اور حکومت غیر قانونی طور پر ”ڈی ایچ کیو“ کو ختم کرنے کے درپے ہے، اور اس کے تمام وارڈز، سینئر فزیشن، ڈاکٹر سٹاف، کلینکل اسٹاف، آلاتِ جراحی، دیگر میڈیکل آلات، لیبارٹریز، فرنیچر وغیرہ کو ڈی ایچ کیو سوات سے نئے سیدو ٹیچنگ اسپتال میں شفٹ کیا جا رہا ہے۔ اس مد میں مذکورہ اتھارٹیز نے غیرقانونی اور خلافِ حقیقت سرجیکل، میڈیسن، ای این ٹی، سائیکاٹری، کارڈیالوجی، پیڈز، پیڈز سرجری اور دوسرے وارڈز کو آلات سمیت اور تمام سپیشلسٹ کے اُو پی ڈیز مارننگ کلینکس کے علاوہ گائناکالوجی اور فرنیچر نئے سیدو ٹیچنگ اسپتال شفٹ کر دیا ہے۔ اس لیے انتظامی اتھارٹیز اور صوبائی حکومت کی نیت کا اندازہ صاف معلوم ہوتا ہے۔ اس نسبت اگر مذکورہ جی ایچ کیو سے یوں ہی تمام وارڈز مع سامان اور ڈاکٹر شفٹ کیا جانے لگا، تو ڈی ایچ کیو سوات کی حیثیت خود بخود ختم ہوجائے گی۔ یہ سواتی عوام کے ساتھ بالخصوص اور ملاکنڈ ڈویژن کی قریباً 76 لاکھ آبادی کے ساتھ بالعموم ناانصافی ہے۔ ڈی ایچ کیو سوات کا خاتمہ سوات کے عوام کے بنیادی حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترداف ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا پروگرام طے کیا جا چکا ہے۔کس کے مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے؟ یہ اب واضح ہوتا جا رہا ہے۔ کس طرح عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ صاف اندازہ مگر اب ہونا چاہیے۔ اگر میڈیکل آلات، سینئر فزیشن، سٹاف اور وارڈوں کو شفٹ کیا جاتا ہے، تو اس صورت میں مذکورہ اسپتال کی حیثیت ایک خالی بلڈنگ کے علاوہ کچھ خاص نہیں رہ جاتی، جس سے مزید خرابی جنم لے گی۔ کیوں کہ یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ کس طرح مذکورہ میگا پلان کو قریباً دو عشروں میں مکمل کیا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹیچنگ اسپتال مکمل ہوچکا تھا، لیکن اس کے ایکوپمنٹ اور ڈاکٹرز وغیرہ موجود نہیں تھے، جس کی وجہ سے ہر سال مذکورہ ہسپتال کے رینیویشن پر لاکھوں کروڑوں روپے کے خرچے اخراجات ہوتے رہے۔ دوسرف طرف انتظامیہ، عوام کو ٹیکسوں کی مد میں چونا لگاتی رہی۔
قارئین، یہ بے انصافی کیا کم ہے کہ سیدو گروپ آف ٹیچنگ اسپتال کی وجہ سے ڈی ایچ کیو سوات کی تمام مراعات ٹیچنگ اسپتال لے جاتا ہے۔ مثلاً این جی اوز، یو این او اور ڈبلیو ایچ او کے تمام ڈونیشن ڈی ایچ کیو سوات کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ملتے۔ ڈی ایچ کیو کے ایلوکیٹیڈ صوبائی فنڈز، ٹیچنگ کیڈر کو ملتے ہیں۔ پروفیسوریل اور انتظامی اسٹاف کی اجارہ داری ان سب کے علاوہ ہے۔ ٹیچنگ کی مد میں منافع بخش عہدے اور پرائیوٹ کلینکوں میں مریضوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں۔
اب خدا خدا کرکے اسپتال کھولا گیا ہے، لیکن اس شرط پر کہ اس میں ڈی ایچ کیو سوات کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔ واہ بھائی واہ، کیا انصاف ہے! کوئی سیاسی راہنما خودکُشی کرے، تو کرے! ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ خستہ حال اسپتال ہوتا، تو بات کچھ اور تھی لیکن یہاں تو پوزیشن ہی کچھ اور ہے۔ کوئی اور یہ کام کرتا، تو سمجھ میں آتا لیکن ”اپنے وزیر اعلیٰ“ سے اتنی بے توفیقی کا گلہ کیسے کیا جائے؟ بہترین بلڈنگ، بہترین سٹاف، فرنیچر، لیبارٹریز وغیرہ کو مزید خراب اور خستہ حال کرنے کا کام کوئی موجودہ حکومت سے سیکھے۔
صوبائی حکومت نے آر ایچ سی 2019ء ایکٹ کا مسودہ پاس کرلیا ہے، جس کی وجہ سے ڈی جی ہیلتھ خیبر پختونخوا، چھتیس ڈی ایچ کیوز، چھتیس ایم ایس اور ڈی ایچ اوز ختم ہو جائیں گے۔ ڈی جی ہیلتھ کا عملہ ختم ہوکر ٹیچنگ کیڈرز میں دوبارہ کنٹریکٹ پر بھرتی ہوجائے گا۔ دھیرے دھیرے صحت کی نجکاری عمل میں آئے گی۔
قارئین، خیبر پختونخوا اور سوات بالخصوص ایک ”تجربہ گاہ“ ہے۔ کسی بھی چیز کا ٹیسٹ سب سے پہلے سواتی عوام پر کیا جاتا ہے۔ ڈی ایچ کیوز کے لاکھوں کروڑوں روپے کی ریونیو حکومت کو راس نہیں آئی۔
ٹیچنگ اسپتال کی وجہ سے ڈی ایچ کیو سوات میں مریضوں کو سخت مشکلات اور تکالیف کا سامنا ہے۔ ہزاروں لوگ لائنوں میں کھڑے ہوکر ”ایمرجنسی ٹریٹ منٹ“ کرتے ہوئے واپس ہوجاتے ہیں۔حکام نے چپ سادھ لی ہے اور اپنی بیمار ذہنیت اور اپنا ایجنڈا لاگو کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مریض اور عوام جائیں بھاڑ میں۔ صحت کا انصاف دیکھنا ہو، تو یہ نمونا کافی ہے۔ یہ عوام کے ساتھ انتہائی بے انصافی ہے۔ کیوں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتا ل بنیادی طور پر مریضوں کے لیے ہوتے ہیں، اور ٹیچنگ ہاسپٹل بنیادی طور پر ٹیچنگ سٹاف اور ٹرینز کے لیے۔ تاہم ثانوی طور پر اس میں مریضوں کی دیکھ بھال بھی ہوا کرتی ہے، جب کہ ڈی ایچ کیو میں بنیادی طور پر مریض پہلے طور پر ٹریٹ کیے جاتے ہیں، اور ثانوی طور پر دیگر امور نمٹائے جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر جی ایچ کیو سے تمام یونٹس، ڈپارٹمنٹ،سینئر ڈاکٹر اور میڈیکل آلات، تمام او پی ڈیز لے لی جائیں، تو مریض کہاں پر علاج کے لیے جائیں گے؟ اگر ہم یونٹس سمری ریکارڈ کا سرسری جائزہ لے لیں، تو یہ واضح اور آشکارا ہو جائے گا کہ پہلے ہی سے مذکورہ ہسپتال پر تمام ڈویژن یعنی ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع کے مریضوں کا بوجھ پڑتا رہا ہے، اور تقریباً تین چار سال قبل 2015ء میں آٹھ لاکھ لائے گئے مریضوں کو او پی ڈی سے رخصت کیا گیا ہے، یعنی ایک دن میں اگر اس کا حساب کیا جائے، تو تقریباً ڈیڑھ ہزار سے لے کرتین ہزار مریض روزانہ اس ہسپتال میں آتے جاتے رہے ہیں۔
ڈی ایچ کیو میں تین شعبے پیڈز، گائنی اور وومن اینڈ چلڈرن ہسپتال ہوا کرتے ہیں، لیکن حکومت اور ایڈمنسٹریشن اتھاریٹیز نے ڈی ایچ کیو کو ختم کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ سیاسی راہنما، سوشل ایکٹویسٹ، وکلا، ڈاکٹر اور عوام اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، یا نہیں؟ وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا۔
ڈی ایچ کیو سوات
