فضل مولا زاہدؔ
پہلی قسط کا”جملہئ معترضہ“ تاریخ کے سرہانے رکھ کر آگے سرکتے ہیں، توساتھ والی مسجد سے قرآن مجید کی تلاوت کی مترنم آوازیں سنتے ہیں۔ مسجد کے ساتھ ہی سڑک کی دائیں جانب قصائی کی دُکان کے فرنٹ ویو پرذبح کی ہوئی بزرگ بھینس یا بوڑھے سانڈ کے تازہ بہ تازہ گوشت کے قابلِ دید و قابلِ ذکر حصے بخرے بہ شمول ِچانپ، چربی، پائے اور گردہ مع کُلہم کلیجہ کے ایک منفرد انداز میں ”ایگزی بی شن“ پر ہیں، جس کے سامنے چند ایک گاہک اور بہتیرے تماشبین، تو کھڑے ہی کھڑے ہیں، محلہ بھرکے کتے بھی دستوں کی صورت میں ہڈی وڈی کے ٹکڑوں کے انتظار میں انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ دو زانو بیٹھے یا کھڑے ”کُت کُتاریاں“ کرتے ہوئے، کانوں کو دوٹوک انداز میں متحرک رکھتے ہوئے، منھ کا در وا کیے ہوئے، رال ٹپکاتے ہوئے اور قصائی کی چلتی ہوئی چھری پرمکمل دھیان مرکوز کیے ہوئے۔ کوئی ہڈی اُن کی طرف پہنچتی ہے، تو یہ اُس پر ہڑبونگ مچانے سے پہلے ایک دوسرے پرہڑبونگ مچادیتے ہیں۔ ہڈی کی ”سیٹل منٹ“ ہو جائے، تو یہ پھر سے ضرورت کے مطابق بھائی بہن یا ”نظریہئ ضرورت“ کے تحت فرینڈز بن جاتے ہیں۔کتوں کی درویشی، وفا شعاری، صفائی پسندی اور عجز و انکسار بارے بھی بڑی باتیں ہیں کرنے کو، لیکن اِس وقت اُن باتوں کا وقت نہیں۔ جیسے ہی اکتوبر کے اوائل میں صبح صبح ٹھنڈ کی ”سپیل“ پڑتی اور بڑھتی ہے، قصائی کی ہٹی کے متوازی عمرخالق کے ہیئر ڈریسنگ سیلون کے ”ثقاوے“ پھر سے آباد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔یہاں سویرے سویرے دو قسم کے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ایک،گرم پانی سے مفت وضو کا فریضہ سر انجام دینے والے ”بزرگانِ بستی“، دوم، غُسل کا لازمی فریضہ سرانجام دینے والے والے محلے کے جی دارنوجوان، جن کے دَم سے یہ ثقاوے چلتے ہیں۔ ”واکنگ ڈسٹنس“ پر واقع گاڑیوں کے اُس اڈے سے گزرتے ہیں جو نصف صدی پہلے ایک تانگہ سواریوں کے زیرِ نگیں تھا، بعدمیں مرحومین مقدم خان طوطا اور فیروز ماما کی لاریوں کے تسلط میں چلا آیا اور اب سوزوکیوں، کیری ڈبوں، کاروں، ویگنوں، فلائنگ کوچوں اور ٹیو نسوں کا سنٹر آف ایکسی لینس ہو چلا ہے۔ یہی پر میرے سجے ہاتھ ریاستِ سوات کے دور کے نامی گرامی قاضی القضاء کا پُرشکوہ مکان واقع ہے۔ خاموشی اور مایوسی کے کہر میں لپٹا ہوا۔ قاضی غفران الدین بڑے فصیح و بلیغ اور حاضر جواب شخصیت ہوا کرتے تھے۔ کبھی سوات کے انصاف کے ایوانوں میں اُن کا توتی بولتا تھا۔ اب وہ عمر کا سیکڑہ پار کر چکے ہیں۔ روبصحت ہیں (ماشاء اللہ) لیکن ذہنی طور پر کافی کمزور ہو چکے ہیں۔ یہ طاقت، عزت، یہ رُعب و دبدبے یہ نام نامیاں کتنے خوابیدہ، کتنے بے وقعت اور ”ٹرانزیشنل“ ہوتے ہیں۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
اسی مکان کے پہلو میں محمد عثمان نانبائی کا تندور ہے، جہاں خاصی گہماگہمی ہے گرما گرم روٹیوں کے طلب گاروں کا۔ ہمارے دانت تو باسی مکئی کے روٹی کے ٹکڑوں پر پلے بڑھے یا ”کٹورے ماما“ کے کیک رسوں پر۔ تھوڑا سا آگے حرکت کرتے ہیں، تو اُسی کٹورے ماما کی ”ہوٹل کم ہٹّی“ نظر آتی ہے جو آج بھی ایسی ہی ہے جیسے نصف صدی پہلے تھی۔ ہاں، وہ چائے کی ہلکی پتلی کالی کلوٹی سی پتیلی اور کھبے ہاتھ پڑی پُرانی سی ”جال ڈولی“ دونوں اب اُس جگہ سے عنقا ہیں۔ دِن دہاڑے جہاں سے ”ڈیلی بنیادوں“ پر ہم ایک دو کیک رسوں کی ڈکیتی کا وقوعہ رونُما کرتے، مالِ غنیمت کوساتھ والی پولیس چوکی کے سامنے کھڑے سپاہی کی مشکوک نظروں سے بخیر گزارتے۔ شکار ہذا کو سکول کے کلاس روم تک لاتے ہی آ شکارا کرتے۔ وہیں پرمزے مزے کے ساتھ خشوع و خضوع سے خود”کُلو وشربو“ کرتے اور چلتے ہوئے دانت دکھا دکھا کر دوسروں کو للچاتے پھرتے پچھلی صدی کی اُنیس سو ستّر کی دہائی میں۔
مزید برآں کٹورے ماما جب کسی گاہگ کی آؤ بھگت میں مصروف و مامون ہوجاتے، تو بعینہٖ اُسی دقیقے میں ساتھ پڑی ”صندقچڑی“ خود ہی ہمارا ہاتھ کھینچ لیتی، خود ہی آنے دوآنے کے دو چار سکے دو انگلیوں کی بیچ میں فوری تھما دیتی، پیار سے ہماری جیب میں ڈلوا دیتی، خود ہی نس جانے کا اشارہ فرما دیتی، اور حکم کے مطابق ہم نس جاتے۔ وہ بابرکت وپُرشکوہ سکول یہاں سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے، جہاں پہلے قدم ہم نے تب رکھے جب ”بلوغی بیماری“ نے اپنی رنگینی سے دماغی کھوپڑا دبوچا تھا۔ جنونی وائرس نے دلِ کافر کو گھیرا تھا۔ جہا ں پینے کو دودھ بھی باافراط ملتا تھا۔ نیز مجنوں ثانی بننے کے لیے موقع محل کے موافق مناسب مواد بھی میسر تھا۔ تعلیم ِمخلوطہ کا زمانہ اور ٹیلی پیتھی روابط کا دور دورہ تھا۔ کچھ ہی دنوں میں ہم ایک لیلیٰ سے باہمی طور پر مربوط ہوئے۔ اِس ارتباط سے ارتباط بڑھتا گیا، جوں جوں کسی سے ارتباط کا ارتکاب کیا۔
داور ِحشر مرا نامہئ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
اِسی سکول سے میٹر ک کی ”ڈگری“ ہتھیانے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالی اور
صداقت کا عدالت کا اوردُنیا کی امامت کا
والے سبق کا رٹّا لگایا، تواِس کے بل بوتے پر سرکار کے اُن ایوانوں میں گھس گئی، جہاں بڑے گھمنڈی لوگوں کا خیال تھا کہ اپنا وہاں پر گھسنا سِرے سے بنتا نہ تھا۔ یہی وہ سکول ہے جس کے سامنے بڑی پارسا صورت بنا کے گزرتے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے گاڑی کے بریک پر پاؤں رکھتے ہیں۔ سکول کی بلڈنگ اورآس پاس پرطائرانہ نظر دوڑاتے ہیں اور ایک سلیوٹ مار کر اِس کی عظمت وحرمت کوہدیہئ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ سکول اور اِس بستی کے بندوں کی ”آخری آرام گاہ“ ساتھ ساتھ ہیں۔ ہم نے خود مرنا تھوڑی ہے۔ سو مُردوں بیچاروں سے کیا سروکار! قضا و قدر کے کان بہرے ہو جائیں۔ یہاں سے جلدی جلدی کوچ کرتے ہیں۔ بھول ہی گئے کہ سرکار کے سکول کے شرق و غرب میں کئی پرائیویٹ سکولوں کا جمگھٹا ہے، جہاں دِن کے اوقات میں مختلف یونیفارم میں ملبوس بچے بچیوں کا میلہ لگا ہوا لگتا ہے۔ ابھی وہاں خاموشی ہے، لیکن ساتھ میں واقع وادی کا وہ واحد پرائیویٹ میڈیکل سنٹر اس وقت بھی مریضوں کے انتظار میں کھلا پڑا ہے، جس کے ڈاکٹر نے اپنے بڑوں سے احترامِ انسانیت اور خدمتِ خلق کا شعار سیکھا۔ کاش تمام ڈاکٹرز کے والدین ڈاکٹر ریاض کے والدِ بزرگوار جیسے ہو جائیں جو اپنے بچوں کو ایسی ہی نصیحت پلو باندھ لیں۔ (جاری ہے)
منجھی کتھے ڈاھواں؟ (2)
